امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازع شخصیت کو اسرائیل کے لیے امریکہ کا اگلا سفیر مقرر کیا ہے۔
اس عہدے کے لیے مسٹر ٹرمپ کا انتخاب دیوالیہ کے مقدمات لڑنے والے وکیل اور انتہائی دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ڈیوڈ فرائیڈ مین ہیں۔
فرائیڈ مین اس خطے کے بارے میں امریکی پالیسی کے بنیادی أصول ، یعنی دو ریاستی حل، جس میں اسرائیل اور فلسطین کی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہیں، کی مخالفت کرچکے ہیں۔
وہ امریکہ میں رہنے والے اعتدال پسند یہودیوں کا موازنہ ان یہودیوں سے کرچکے ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی مدد کی تھی۔
اپنے ایک بیان میں، جس میں انہوں نے اپنی نامزدگی کو تصدیق کی، فرائیڈ مین نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ابدی اور دائمی صدر مقام یروشلم میں امریکی سفارت خانے میں اپنے عہدے پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب میں قائم ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں یہ دعوی کرتے ہیں کہ یروشلم ان کا صدر مقام ہے۔ یہ چیز ایک عرصے سے امن مذاكرات کا حصہ رہی ہے۔
فرائیڈ مین اس وقت انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے مشیر تھے جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر یقینی طور پر اعتراضات اٹھائے جائیں گے خصوصاً عرب دنیا کی جانب سے۔
یروشلم کے میئر نیر برکات نے اس ہفتے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ انہوں نے سفارت خانے کی منتقلی کے بارے میں ٹرمپ کے عملے سے بات کی تھی ۔ برکات کا کہنا ہے کہ اس گفتگو سے انہیں یہ تاثر ملا کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں۔