امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے آغاز پر بیان دیتے ہوئے یوکرین میں امریکی سفیر بل ٹیلر نے صدر ٹرمپ کی یوکرین کے صدر سے ٹیلی فون پر بات چیت سے متعلق مزید انکشافات کیے ہیں۔
بدھ کو مواخذے کی تحقیقات سے متعلق کارروائی ایوان نمائندگان سے براہ راست نشر کی گئی جب کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں اس کارروائی کو ’وچ ہنٹ‘ قرار دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے آغاز پر دو کلیدی اہلکاروں نے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ان میں یوکرین میں امریکہ کے سابق سفیر ولیم ٹیلر اور سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج کینٹ شامل ہیں۔
بل ٹیلر نے سماعت کے دوران کہا کہ 25 جولائی کو یوکرین کے نو منتخب صدر ولادی میر زیلینسکی سے فون پر بات کرنے کے ایک روز بعد صدر ٹرمپ نے یورپین یونین کے لیے امریکہ کے سفیر گورڈن سونڈلینڈ کو فون کیا تھا۔
بل ٹیلر نے بتایا کہ ان کے عملے کا ایک رکن یوکرین کے دارالحکومت کئیو میں سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں سفیر سونڈلینڈ کے ہمراہ موجود تھا اور اس نے ٹیلی فون گفتگو کے دوران سفیر سونڈلینڈ کو صدر ٹرمپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ یوکرین کے رہنما جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے بقول، "ان کے عملے کو بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ یوکرین کے بجائے جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔"
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے اس نئے انکشاف پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سفیر بل ٹیلر کا بیان محض مفروضوں اور افواہوں پر مبنی ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری اسٹیفنی گریشم نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ جعلی سماعت نا صرف بورنگ ہے، بلکہ یہ ٹیکس دینے والوں کے وقت اور ٹیکس کا ضیاع بھی ہے۔
ادھر صدر ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصروفیت کے باعث مواخذے کی سماعت نہیں دیکھ سکے۔ انہوں نے کہا، ’’نہیں، میں نے یہ سماعت نہیں دیکھی۔ میں اس قدر مصروف ہوں کہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا۔ یہ بالکل جعلی ہے۔ تاہم، بعد میں مجھے رپورٹ مل جائے گی۔‘‘
ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایڈم شیف نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے دوران سوال کیا کہ آیا صدر ٹرمپ نے اپنے منصب کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی مفاد کی خاطر یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا تھا یا نہیں؟
انہوں نے کہا کہ اس سوال کا جواب نہایت اہم ہے اور یہ نہ صرف موجودہ امریکی صدر کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے گا بلکہ اس بات کا تعین بھی کرے گا کہ امریکی صدر سے، جو امریکہ کے ’کمانڈر ان چیف‘ بھی ہیں، کس قسم کے کردار کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پینل میں شامل ریپبلکن پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار کیلی فورنیا سے ایوان نمائندگان کے رکن ڈیوڈ نونس نے ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی پر الزام عائد کیا کہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں روسی ساز باز کے امکان سے متعلق تحقیقات میں ناکامی کے بعد اس نے مواخذے کی تحقیقات کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈیموکریٹک ارکان کی طرف سے لائے جانے والے الزامات پر کڑی نظر رکھنا ہو گی کیونکہ اس کے تحقیقات کار بند کمروں میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر رہے ہیں۔
انہوں نے یوکرین کے معاملے کو امریکی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کا ذیلی حصہ قرار دیا۔
اس تحقیقات کا مرکز صدر ٹرمپ کی طرف سے 25 جولائی کو یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کو کی جانے والی فون کال ہے جس میں انہوں نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کے سابق نائب صدر اور آئندہ صدارتی انتخاب میں ان کے متوقع کلیدی حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے یوکرین میں کاروباری معاملات میں ممکنہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کریں جس کے بدلے انہوں نے یوکرین کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بحال کرنے کی پیشکش کی تھی۔
فون کال کے بعد ایک اہم مخبر نے اس فون کال کا راز فاش کر دیا تھا جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے اس ٹیلی فون بات چیت کا ایک ٹرانسکرپٹ جاری کر دیا تھا۔ تاہم، اس کے بعض حصوں کو حذف کر دیا گیا تھا۔