اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کے تمام نمائندے متوقع طور پر ایوان کی جوڈیشری کمیٹی کی جانب سے مواخذے سے متعلق دو شقوں پر ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔ امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ تیسرے صدر بن جائیں گے جن کے خلاف مواخذہ ہوا ہو۔
ڈیمو کریٹس نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے یوکرین پر اپنے سب سے بڑے ڈیمو کریٹ مد مقابل کے بارے میں تفتیش پر زور دے کر صدارت کے منصب کا ناجائز استعمال کیا تھا۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا موقف ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔
اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان متوقع طور پر یہ متعین کرنے کے لیے ایک تاریخی ووٹنگ کرے گا کہ آیا تاریخ میں تیسری بار کسی امریکی صدر کا مواخذہ کیا جائے یا نہیں۔
ایوان نمائندگان کی جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین ڈیمو کریٹ جیرلڈ نیڈلر کا کہنا ہے کہ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال پر مواخذے کی قرار داد کے آرٹیکل ون کا سامنا ہے۔
ایوان کی جوڈیشری کمیٹی نے گزشتہ دنوں پر جوش یک جماعتی سماعتوں کے بعد دو جماعتی ووٹنگ کے لیے مواخذے کی دو شقوں کی منظوری دی تھی اور وہ تھیں کانگریس کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنا اور اختیارات کا ناجائز استعمال۔
ایوان کی جوڈیشری کمیٹی کے رپبلکن رکن ڈگ کولنز کہتے ہیں کہ ایک دن یہ اکثریت دوبارہ اقلیت بن جائے گی اور وہ اقلیتی حقوق برقرار رکھنے کے لیے چیخ چلا رہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف 2019 کی بات کروں گا اور کہوں گا کہ اس سال آپ نے اقلیت کے حقوق پر ضرب لگائی ہے۔
اس ہفتے ایوان میں متوقع ووٹنگ سے قبل اتوار کی صبح ایوان کی جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین جیرلڈ نیڈلر نے کمیٹی کی ووٹنگ کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صدر نے سازش کی اور 2016 کے انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کی کھلم کھلا کوشش کی۔ وہ 2020 کے انتخابات میں کھلم کھلا غیر ملکی مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ ہماری قومی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ لاحق کر رہے ہیں۔ کیا ہم ایک آئینی جمہوریت رکھتے ہیں یا ہمارے ہاں کوئی مطلق العنانیت ہے جہاں صدر کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی وہ عنصر ہے جو یہاں داؤ پر ہے۔
اگر ایوان کے نمائندے توقع کے مطابق مواخذے کو مقدمے کے لیے ری پبلکن کنٹرول کی سینیٹ کے حوالے کرنے کے لیے ووٹنگ کرتے ہیں تو ٹیڈ کروز جیسے ارکان جیوری میں شامل ہوں گے۔
رپبلیکن سینیٹر ٹیڈ کروز کہتے ہیں کہ ہم نے درحقیقت مواخذے سے متعلق ایوان کی شقوں اور ان کے پورے جماعتی کیس کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ یہ اس مقدمے کے اختتام کے لیے ایک درخواست ہے جو ہم ایوان میں دیکھ چکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کیس سینیٹ میں آئے گا۔ ہم شفاف کارروائیاں کریں گے اور پھر اس کا کچھ نہیں بنے گا کیوںکہ اس کے لیے حقائق موجود نہیں ہیں۔‘‘
دو ممتاز سینیٹرز نے اس ہفتے کھلم کھلا کہا تھا کہ وہ مقدمہ سنے بغیر ہی انہیں بری کرنے کے لیے ووٹ دیں گے جس سے اس کارروائی کی شفافیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔