امیگریشن سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ایکزیکٹو آرڈر کا مستقبل امریکی وفاقی عدالتی نظام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ آخر کار سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے ۔
گزشتہ ہفتے ایک وفاقی جج نے ٹرمپ کے حکم نامے پر، جس کے تحت پناہ گزینوں کا داخلہ معطل اور مسلم اکثریت کے سات ملکوں کے لوگوں کے داخلے پر عارضی طور پر پابندی لگائی گئی تھی ، عمل درآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔
ٹرمپ کے نقاد اور اس کے حامی دونوں اس وقت جاری قانونی جنگ کو آئین کے تحت صدر کے ایکزیکٹو اختیار اور قانون کی بالادستی کے لیے صدر کو جواب دہ قرار دینے سے متعلق عدالتی شاخ کے حقوق کا ایک کلیدی امتحان خیال کرتے ہیں ۔
صدر ٹرمپ کے لیے امیگریشن کو سخت کرنے سےمتعلق ایکزیکٹو آرڈر کاتعلق صرف اور صرف امریکیوں کو محفوظ رکھنا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اسے ہمارے ملک کی سیکیورٹی کے لیے، ہمارے شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے جاری کیا گیا تھا تاکہ جو لوگ ہمارے ملک میں آئیں وہ ہمیں نقصان نہ پہنچائیں ۔ اور اسی لیے اسے جاری کیا گیا تھا۔
لیکن ٹرمپ کے حکم نامے کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ۔ ڈیمو کریٹس نے جن میں سینیٹ کے ڈیمو کریٹک لیڈرچک شومر شامل تھے شکایت کی کہ صدر اپنے اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ری پبلکنز جماعتی سوچ کو ایک طرف رکھ دیں اور وہی کچھ کریں جو ملک کے بہترین مفاد میں ہو ۔ ورنہ ہمارے حکومتی ادارے، ہمارا آئین اور امریکہ کے بنیادی اخلاقی أصول تہ و بالاہو سکتے ہیں ۔
مخالفین کہتے ہیں کہ امیگریشن سے متعلق حکم نامہ تعصب پر مبنی ہے اور غیر آئینی ہے ۔
لیکن قانونی ماہر ڈین مک لاگلن کہتے ہی کہ جب امیگریشن کو باقاعدہ بنانے کے لیے صدارتی اقدام کا معاملہ ہو تو تاریخی طور پر حالات مسٹر ٹرمپ کے حق میں ہو سکتے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کیونکہ صدر اس اختیار پر انحصار کر رہے ہیں جو انہیں کانگریس نے دیا ہے، انہیں بہت زیادہ وسیع اختیار بھی حاصل ہے، آپ خواہ ان کی پالیسی کو دانش مندانہ سمجھیں یا نہ سمجھیں، انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر عمل کرنے کا بہت وسیع اختیار حاصل ہے ۔
جار ج واشنگٹن یونیورسٹی کے قانونی ماہر پال شیف برمین کہتے ہیں کہ اب وفاقی عدالتیں یہ فیصلہ کریں گی کہ آیا ٹرمپ نے اپنے ایکزیکٹو آرڈر جاری کر کے اپنے صدارتی اختیار سے تجاوز کیا ہے یا نہیں ۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ ایکزیکٹو آرڈرز اختیارات سے متجاوز ہیں اور میرا خیال ہے کہ ان کے إطلاق اور ان کے جاری کرنے کے انتہائی ناقص طریقہ کار دونوں اعتبار سے ایسا ہوا ہے ۔
ٹرمپ نے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ایک ہمہ جہت کاروباری شخص کے طور پر ، ایک بین الاقوامی برانڈ کے ساتھ اپنا مقام بنایا تھا ۔ لیکن اب صدر کے طور پر، ایکزیکٹو اتھارٹی کی حدود کے ساتھ اور کانگریس اور عدالتی نظام کی طرف سے عائد قدغنوں کے ساتھ کام کرنا ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے ۔
امریکی یونیورسٹی کے قانونی ماہر جیمز تھربر کہتے ہیں کہ ہماری جمہوریت میں اختیارات کی مساوی تقسیم ہے ۔ یہ متحمل، مشاورتي اور شفاف ہے۔ ایک کاروباری شخص کے طور پر وہ یہ کہنا پسند کر سکتے ہیں کہ آ پ کو برخاست کر دیا گیا ہے یا اس پر عمل درآمد کر دیں، یا اب آگے چلیں ۔ لیکن ایک جمہوریت میں آپ ویسا نہیں کر سکتے اور یہی چیز انہیں پریشان کرے گی ۔
امیگریشن سے متعلق حکم نا مے کو عارضی طور پر روکنے کے فیصلے کے نتیجے میں ہوائی اڈوں پر اس وقت بہت سے پر مسرت مناظر دیکھنے میں آئے جب خاندانوں کا دوبارہ ملاپ عمل میں آیا ۔
لیکن امکان یہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے سفر پر پابندی اور اس مقدمے میں صدارتی اختیار کے معاملے پر آخری فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ۔