ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو شکاگو میں ایک جلسہ اس وقت منسوخ کر دیا جب ہزاروں مظاہرین وہاں جمع ہو گئے اور ٹرمپ کے حامیوں سے جھگڑنے لگے۔
ٹرمپ کی تقریر سے قبل یونیورسٹی آف ایلینائے، شکاگو میں درجنوں مظاہرین جلسہ گاہ میں داخل ہو گئے اور وہاں ٹرمپ کے حق اور مخالفت میں نعرے لگانے والوں کے درمیان جنگ کا ماحول پیدا ہو گیا جس میں غیرمہذب زبان بھی استعمال کی گئی۔
ٹرمپ نے جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام لوگوں پر زور دیا کہ وہ ’’امن سے جائیں‘‘ اور کہا کہ وہ کسی کو بھی زخمی نہیں دیکھنا چاہتے۔
وہاں موجود افراد کے درمیان جھڑپیں شروع ہونے کے بعد پولیس اور سکیورٹی محافظوں نے دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کے لیے پوزیشنیں سنبھال لیں۔
ٹیلی وژن پر دکھانے جانے والے مناظر میں جلسے میں شریک افراد کو چھوٹے گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے اور مکے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس نے بعد میں مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا نہ کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ حامیوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین شکاگو ریلی میں خلل ڈالنے اور اسے ختم کرانے کی نیت سے آئے تھے۔
مگر انتخابی مہم کے دوران دیگر جلسوں میں بھی ٹرمپ مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کیا گیا۔ خود ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے جلسوں کے دوران مظاہرے کرنے والے مخالفین پر تنقید کر کے تشدد کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔
اس سے قبل جمعے کو ریاست میسوری میں سینٹ لوئیس میں بھی ایک جلسے کے دوران ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ہال کے باہر لوگوں کے ایک دوسرے سے الجھنے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں آٹھ مرتبہ خلل پڑا۔
دریں اثنا ایک خاتون صحافی نے ٹرمپ کی مہم کے مینیجر کوری لیوانڈونسکی کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے فلوریڈا گولف کلب میں منقعدہ ایک جلسے میں زبردستی بازو سے پکڑ کر انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکالا۔
ٹرمپ عموماً اپنے جلسوں میں سخت اور توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہیں اور ان کے اہداف میں میکسیکن، مسلمان اور تارکین وطن شامل رہے ہیں۔
ان کے بیانات سے ان کے حامیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی مگر ان کے مخالفین نے اس پر بہت غصے کا اظہار کیا جنہوں نے ان پر نسل برستی کا الزام عائد کیا۔