ٹرمپ کا ایران کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات پر زور

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے دو طرفہ مذاکرات پر زور دیا ہے۔

جمعرات کو فرانس کے علاقے نارمنڈی کے شہر کھا میں صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ ملاقات سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایران امریکہ سے مذاکرات چاہتا ہے اور امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے۔

ان کے بقول "یہ اچھا ہے اور ہم اس پر بات کریں گے۔" لیکن ساتھ ہی امریکی صدر نے واضح کیا کہ ایران کو کسی صورت جوہری ہتھیاروں کے حصول کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات پر زور دینے سے متعلق صدر ٹرمپ کا دو روز میں یہ دوسرا بیان ہے۔ اس سے قبل بدھ کو اپنے دورۂ برطانیہ کے دوران ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

لیکن ساتھ ہی انٹرویو میں صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایران کی جانب سے لاحق خطرات کے سدِ باب کے لیے اس کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بھی تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ فوجی کارروائی نہیں چاہتے۔ لیکن، اس کا امکان اپنی جگہ موجود ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوئی تھی جب امریکہ نے ایران سے تیل کی خریداری پر عائد پابندی سے بعض ملکوں کو دیا جانے والا استثنیٰ ختم کر دیا تھا۔

اس استثنیٰ کے خاتمے سے ایران کی تیل کی برآمدات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جس پر ایران بہت برہم ہے۔ بعد ازاں کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا تھا جب ایران سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ نے خطے میں امریکہ کے ایک اور طیارہ بردار جہاز کی تعیناتی اور میزائلوں کی تنصیب سمیت مزید فوجی دستے مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کی منظوری دی تھی۔

گو کہ حالیہ کشیدگی کے آغاز کے بعد سے صدر ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سمیت ان کی حکومت کے بعض اہم عہدے دار بارہا ایران کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا عندیہ دے چکے ہیں، لیکن ایران بات چیت کی پیش کش مسترد کر چکا ہے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی کے لیے دیگر عالمی طاقتیں بھی سرگرم ہیں اور جمعرات کو امریکہ کے دو اہم اتحادیوں – جرمنی اور جاپان – نے اعلان کیا ہے کہ ان کے اعلیٰ عہدیدار تہران کا دورہ کر کے ایرانی قیادت سے کشیدگی میں کمی لانے پر بات کریں گے۔

جرمنی نے کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ ہیکو ماس آئندہ ہفتے تہران جائیں گے جہاں وہ اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ خطے کی صورتِ حال اور 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے پر ایران کی جانب سے عمل درآمد پر گفتگو کریں گے۔

گزشتہ ڈھائی برسوں میں جرمنی کے کسی وزیرِ خارجہ کا تہران کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔

دریں اثنا، جاپان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وزیرِ اعظم شنزو ایبے آئندہ ہفتے تہران کا دورہ کریں گے جو گزشتہ 40 برسوں میں کسی جاپانی وزیرِ اعظم کا ایران کا پہلا دورہ ہو گا۔