دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سال 2018 کے مقابلے میں 2019 میں پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ کرپشن بڑھنے کے باعث 10 برس میں پہلی مرتبہ پاکستان کا اسکور بڑھنے کے بجائے کم ہو گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2019 کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) رپورٹ جاری کر دی ہے، جس کے مطابق، پاکستان میں گزشتہ سال کرپشن میں اضافہ ہوا اور پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں مزید ایک درجہ تنزلی ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کا سی پی آئی انڈیکس میں اسکور 33 سے کم ہو کر 32 ہو گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے نیب کے موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کی زیرِ قیادت قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی کو بہتر قرار دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ نیب پاکستان نے بدعنوان عناصر سے 153 ارب روپے نکلوائے۔ لیکن، اس کے باوجود، کرپشن سے متعلق انڈیکس میں پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلا گیا ہے۔
سی پی آئی انڈیکس میں 32 پوائنٹس حاصل کرنے پر پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں پوزیشن 3 درجے تنزلی کے بعد 117 سے 120 ہو گئی ہے۔ یوں، 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 120 واں رہا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی زیرِ قیادت ادارے کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ بدعنوان عناصر سے 153 ارب روپے ریکور کرنے کے علاوہ عدالتوں میں 530 ریفرنسز دائر کیے۔ ملزمان کو سزائیں دلوانے کی شرح 70 فی صد رہی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن روکنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی ہیں جن میں سیاسی فنانسنگ کا کنٹرول، سیاست میں پیسے اور اثر و رسوخ کو قابو میں کرنے، بجٹ اور عوامی سہولتوں کو ذاتی مقاصد اور مفاد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مفادات کے تصادم اور بھرتیوں کے طریقے پر قابو پانے، لابیز کو ریگولیٹ کرنے، انتخابی ساکھ مضبوط کرنے اور غلط تشہیر پر پابندی لگانے کی بھی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں شہریوں کو با اختیار بنانے، سماجی کارکنان، کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں اور صحافیوں کو تحفظ دینے کی بھی بات کی گئی ہے اور کرپشن روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کو علیحدہ کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں صحافت کو خطرہ نامعلوم اور پر اسرار عناصر سے ہے: رپورٹسی پی آئی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی گزشتہ برس کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد عالمی درجہ بندی میں ان ممالک کا اسکور کافی نیچے چلا گیا ہے۔
جن ممالک کی درجہ بندی میں تنزلی ہوئی ان میں کینیڈا کا اسکور 4 درجے تنزلی کے بعد 81 سے 77 ہو گیا۔ فرانس میں بھی کرپشن میں اضافہ ہوا اور اسکور 3 درجہ تنزلی کے بعد 72 سے 69 ہو گیا۔
ڈنمارک اور نیوزی لینڈ دنیا کے 180 ممالک میں سب سے کم کرپٹ ممالک قرار پائے ہیں۔ تاہم، پہلے نمبر پر آنے کے باوجود اسکور میں ڈنمارک کی ایک درجہ تنزلی ہوئی اور اس کا اسکور 88 سے 87 ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ کم کرپٹ ممالک کی فہرست میں فن لینڈ تیسرے، سنگاپور چوتھے، سویڈن پانچویں، جرمنی نویں، برطانیہ 15 ویں اور امریکا 24 ویں نمبر پر ہے، جب کہ پاکستان کا 120 واں نمبر ہے۔
"حکومتی سطح پر جتنی کرپشن گزشتہ سال تھی، آج بھی اتنی ہے"
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے تنظیم کے نمائندۂ پاکستان عادل گیلانی نے کہا ہے کہ یہ سروے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل خود نہیں کرتی بلکہ 13 مختلف ذرائع میں سے کم از کم تین ذرائع کے ذریعے یہ رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عادل گیلانی نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان اسکور 33 تھا اور اس بار میں ایک نمبر کی کمی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک نمبر کم ہونے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کرپشن کم یا زیادہ ہو گئی ہے۔ البتہ، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال حکومتی سطح پر جو کرپشن تھی وہ آج بھی اتنی ہی ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔
عادل گیلانی نے کہا کہ ڈنمارک، جو سب سے کم کرپٹ ملک ہے، اس کا اسکور بھی کم ہوا ہے۔ کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور امریکہ کا بھی اسکور گرا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں کرپشن بڑھی ہے۔
SEE ALSO: ’ہمت ہے تو پکڑ لو‘انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطابق، دنیا بھر میں فی ملک کرپشن 20 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں بھی کرپشن ہے اور اس رپورٹ کا مقصد کرپشن کے حوالے سے اسکور دیکھ کر اپنے نظام کو درست بنانا ہے۔
پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی دو وجوہات ہیں جن میں سے پہلی قانون کی حکمرانی ہے۔ ان کے بقول، عدالتی فیصلوں پر یا تو عمل درآمد نہیں ہوتا یا بہت تاخیر سے ہوتا ہے۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔
ان کے نزدیک کرپشن کی دوسری اہم وجہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ عادل گیلانی نے کہا کہ اس وقت بھی نیب میں جن افراد کے خلاف کیسز چل رہے ہیں، وہ اب بھی پاکستان کی حکومتی ٹیم کے رکن ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر تاثر خراب ہوتا جاتا ہے۔
"ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ حکومت کے منہ پر طمانچہ"
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ سے متعلق، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ ہم تو بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس دورِ حکومت میں کرپشن بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ رپورٹ حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ وزیرِ اعظم نے گزشتہ حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ عالمی ادارے نے احتسابی سرکار کو بے نقاب کر دیا ہے۔"
شیری رحمٰن نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستان 117 سے 120 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ اس حکومت نے کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ثابت ہو گیا کہ کرپشن ختم یا کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے۔
ان کے بقول، مالم جبّہ، بی آر ٹی اور دیگر کرپشن اسکینڈلز سے ابھی پردہ اٹھنا باقی ہے۔ حکومت کے تمام تر دعوے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ نئے رکارڈ بنائے گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’جھوٹے دعووں سے ملک نہیں چلتے۔ اچھی گورننس سے چلتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ چور چور کے نعرے لگائے گئے۔ لیکن، اصل چوری ان 16 ماہ میں کی گئی۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ گورننس اور کرپشن کے مسئلے پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔