خواجہ سراؤں کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کا مطالبہ

Your browser doesn’t support HTML5

خواجہ سراؤں کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ

خواجہ سراؤں کی صوبائی صدر فرزانہ نے کہا کہ ہمارے خیال سے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجیں کیونکہ ہمارے مسائل خواجہ سرا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔

عمر فاروق

پشاور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا فرزانہ خیبرپختونخوا کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق کے لئے کئی برسوں سے سرگرم ہیں ۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ میں الگ خانہ ہو یا پھر حج و عمرہ کے خواہش مند خواجہ سراؤں کے مسائل، فرزانہ نے ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا۔

فرزانہ پشاور میں قائم ٹرانس ایکشن کمیٹی کی صدر بھی ہے، انہوں نے پہلی بار ملک میں موجود خواجہ سراؤں کے مشکلات کے حل کے لئے پشاور پریس کلب میں آل پاکستان ٹرانس جینڈر الیکشن نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد 2018 کے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے خواجہ سراؤں کی سیاسی شمولیت کو بہتر بنانا اور چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی میں انہیں مخصوص نشستیں دلانا ہے ۔

آل پاکستان ٹرانس جینڈر الیکشن نیٹ ورک میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے خواجہ سراؤں کی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی، جس میں ٹرانس ایکشن خیبرپختونخوا، سندھ ٹرانس جینڈر نیٹ ورک، پنجاب ٹرانس جینڈر ایسوی ایشن بلوچستان الائنس فار ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے علارہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز نے شرکت کی۔

پنجاب ٹرانس جینڈر ایسوسیشن کی صدر نایاب علی نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ قانون میں ترمیم کی جائے کیونکہ پاکستان میں لوگ ٹرانس جینڈر کے لئے تعلیم اور و وکیشنل ٹریننگ کی بات ہوتی ہے مگر کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ انہیں کیا چاہیئے؟ تو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آواز ایوانوں میں سنی جائے۔

خیبرپختونخوا ٹرانس ایکشن کمیٹی کی صدر نے کہا کہ "آج تک کوئی اسمبلی یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ خواجہ سرا کو مرد کہے یا عورت، ہمارے جنس کے متعلق ابھی بھی ابہام پایا جاتا ہے، تو جو لوگ یہ فیصلہ نہ کرسکیں ، وہ ہمیں ہمارے حقوق کیا دیں گے"۔

اس موقع پر صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور پٹارین ہیومن رائٹ آرگنائزیشن کے چیئرمین احسان علی کھوسہ نے کہا کہ جب ہر پاکستانی کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ ووٹ بھی دے سکتا اور اسمبلیوں میں اپنے نمائندے بھی کھڑے کر سکتا ہے تو خواجہ سراؤں کو یہ حق کیوں حاصل نہیں۔

نایاب علی نے کہا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کو لوگ عورتوں اور اقلیتی برادری سے بھی زیادہ کمزور طبقہ ہے اگر انہیں مخصوص نشستیں دی گئی تو خواجہ سراؤں کو بھی ملنی چاہے۔

فرزانہ نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ شناختی کارڈ، صحت کارڈ، تعلیم، اور روزگار کے حوالے وعدے کئے گئے مگر وہ پورے نہیں کیے گئے۔ بوڑھے خواجہ سراؤں کو زکواة دینے کا بھی کہا تھا مگر کچھ بھی نہ ملا۔

خواجہ سراؤں کی صوبائی صدر فرزانہ نے کہا کہ ہمارے خیال سے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجیں کیونکہ ہمارے مسائل خواجہ سرا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم نے الائنس بنا کر ہم نے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔