عید کی خوشیوں میں ’زہر‘ کی آمیزش

اعظم بستی، محمود آباد، لانڈھی، ڈاکس، شاہ فیصل کالونی، شرافی گوٹھ اور زمان ٹاوٴن میں اس بار عید کی خوشیوں میں ’زہر‘ کی آمیزش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا
پاکستان میں یوں تو عید کی خوشیاں ختم ہوئیں اور پیر کے روز زندگی معمول پر آگئی۔ لیکن، بدقستمی سے، کراچی کے کچھ علاقے مثلاً اعظم بستی، محمود آباد، لانڈھی، ڈاکس، شاہ فیصل کالونی، شرافی گوٹھ اور زمان ٹاوٴن میں اس بار عید کی خوشیوں میں ’زہر‘ کی آمیزش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

عید کا دوسرا دن تھا۔ سارا شہر خوشیوں میں مگن تھا، کہ شام ہوتے ہی سب سے پہلے اعظم بستی محمود آباد میں ایک کے بعد ایک کئی افراد کی حالت بگڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری بستی میں بھگدڑ سی مچ گئی۔ کئی گھروں کے باسی اپنے اپنے مریضوں کو لیکر اسپتالوں کی جانب بھاگے۔

ابھی اعظم بستی کا یہ معاملہ پوری طرح سے سمجھ میں بھی نہ آسکا تھا کہ لانڈھی، ڈاکس، شاہ فیصل کالونی، شرافی گوٹھ اور زمان ٹاوٴن کورنگی سے بھی ایک کے بعد ایک مریض نے سول اسپتال، جناح اسپتال اور کچھ نے نجی اسپتالوں کا رخ کیا۔

ہفتے کی تمام رات اور اتوار کی شام تک ڈاکٹرز نے سر توڑ کوشش کی کہ متاثرہ افراد کو کسی طرح بچایا جاسکے۔ لیکن، اتوار کا سورج ڈھلتے ڈھلتےایک درجن سے زائد افراد لقمہٴ اجل بن گئے۔ مرنے والوں کے لواحقین اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ تمام اموات زہریلی شراب پینے سے ہوئیں۔

مرنے والوں میں سے 14 افراد کا تعلق مسیح برادری سے، جبکہ باقی مسلمان تھے۔

مجموعی طور پر 25افراد زہریلی شراب کا نشانہ بنے۔ پیر کی شام تم 18افراد اس دنیا سے کوچ کرگئے، جبکہ جو بچ گئے ہیں ان کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔

اٹھارہ میں سے ایک شخص کا انتقال لاہور میں ہوا جو ایک شادی میں شرکت کی غرض سے وہاں پہنچا تھا۔ وہ شادی میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے اعظم بستی سے ہی شراب خرید کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

ایم ایل او جناح اسپتال ڈاکٹر دلیپ کھتری کے مطابق جناح اسپتال میں دم ٹوڑنے والوں میں دو سگے بھائی اور ایک سالہ و بہنوئی بھی شامل ہیں۔

اعجاز مسیح جو متاثرہ افراد کی زندگی بچانے کے لئے اسپتالوں میں بہت بھاگا دوڑی کررہے تھے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ متاثرہ افراد میں ان کا کوئی بھی قریبی رشتے دار شامل نہیں۔ البتہ، وہ بھی محمود آباد میں ہی رہتے ہیں اس لئے بستی والوں کا دکھ ان کا اپنا دکھ ہے۔

دورانِ گفتگو ہی اعجاز مسیح نے بتایا کہ محمود آباد اور اعظم بستی ایسے علاقے ہیں جہاں آج پہلی مرتبہ موت کا کھیل نہیں کھیلا گیا، بلکہ بدقسمتی سے سال دو سال بعد ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ 2008ء میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا جس میں 20یا 25افراد مارے گئے تھے۔

اعجاز مسیح نے افسردگی کے عالم میں بتایا کہ ان بیس پچیس افراد میں ان کے خسر بھی شامل تھے، جبکہ ان کا ایک جواں سال برادر نسبتی دلاور مسیح کچی اور زہریلی شراب پینے سے نابینا ہوگیا تھا۔ اس کی زندگی آج تک دوسروں کے لئے عبرت بنی ہوئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اعجاز مسیح کا کہنا تھا کہ زہریلی شراب بیچنے والوں کے خلاف وقتی طور پر تو قانونی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن، مستقل طور پر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ واقعات ختم نہیں ہوسکے۔

محمود آباد اور اعظم بستی کراچی کے ایسے علاقے ہیں جہاں کے زیادہ تر افراد نہایت غریب ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ مسیح برادری پر مشتمل ہے جو پیشے کے اعتبار سے خاکروب ہیں۔ چونکہ، پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت کی اجازت نہیں اور غیر مسلموں کو بھی شراب کے لئے باقاعدہ لائسنس جاری ہوتے ہیں، اس لئے یہ نسبتاً مہنگی ہوتی ہے۔

بستی کے زیادہ تر افراد غربت کے سبب باقاعدہ تیار شدہ شراب خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ لہذا، کچھ موقع پرست افراد سستی شراب کی آڑ میں کچی اور زہریلی شراب فروخت کرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بار بار اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔

ایس ایچ او محمود آباد سرور کمانڈو کے مطابق پولیس نے کچی شراب بیچنے والے دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار افراد پاک کالونی کے علاقے ریکسر لائن میں واقع شراب کی بھٹی سے شراب لا کر محمود آباد میں فروخت کرتے تھے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اپنے طور پر اعظم بستی اور محمود آباد کا سروے کیا تو کئی دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے۔ مثلاً، یہاں کچی شراب پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں ڈھکے چھپے انداز میں فروخت ہوتی ہے۔ ان تھیلوں پر ربر بینڈ لگی ہوتی ہے اور ساتھ میں ایک اسٹرو بھی ہوتا ہے۔

علاقے کے تھانے میں تعینات ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ شراب فروش افراد شام یا رات کے وقت بڑے سے شاپنگ بیگ میں شراب کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں بھر کر انہیں اس انداز سے چلتے پھرتے فروخت کرتے ہیں کہ پہلی نظر میں کسی کو ان پرشک بھی نہیں ہوتا۔

اہلکار کے مطابق انہیں جیسے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس چھاپہ مارنے والی ہے یا ان کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے، وہ تھیلے ادھر ادھر چھپا دیتے ہیں یا انہیں کہیں پھینک کر پولیس کو چکما دے کر نکل جاتے ہیں۔

اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قسم کی شراب خریدنے والے افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ خریدار شراب کی تھیلی لیکر اسٹرو کی مدد سے چلتے چلتے ہی اسے پی لیتا ہے۔ عام آدمی کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ کیا پی رہا ہے۔