اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ اسی ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جج اصغر علی نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی۔
سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب، سرکاری طور پر تحائف میں ملنے والی گاڑیاں سستے داموں خریدنے کے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔
جمعے کو ہونے والی سماعت میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اورملزم عبدالغنی مجید پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران آصف علی زرداری کے وکلا نے علالت کے باعث ان کی طرف سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔ جو منظور کرلی گئی۔ البتہ، میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔
دوران سماعت نیب نے یوسف رضا گیلانی اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عبدالغنی مجید اور یوسف رضا گیلانی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔
کمرہ عدالت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں اور گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے اور آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا۔
عدالت نے آصف زرداری سمیت تمام ملزمان کو 11 جون کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
توشہ خانہ ریفرنس ہے کیا؟
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور اس حوالے سے قوانین کو نرم کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کو ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے بلٹ پروف (بی ایم ڈبلیو 750، ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760، ماڈل 2008) گاڑیاں تحفے میں ملیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق سابق صدر فوری طور پر ان گاڑیوں کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند تھے۔ لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں جمع کرایا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ‘ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ’ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے نیشنل بینک آواری ٹاور کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کو ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی۔ ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کو مجموی طور پر دو کروڑ تین لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
نیب کا الزام ہے کہ خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے تین ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر رقم ادا کی۔
نیب نے ان افراد کو بدعنوانی کا مرتکب ٹھیراتے ہوئے عدالت سے انہیں قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
توشہ خانہ کیا ہے؟
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق جب بھی کوئی حکمران یا بیوروکریٹ کسی سرکاری دورے پر بیرون ملک جائے اور اسے وہاں تحائف ملیں تو وہ وطن واپس کر یہ تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کراتا ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمائندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فی الفور کابینہ ڈویژن کے ماتحت سرکاری تحائف کی تحویل کے مرکز توشہ خانہ میں جمع کیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
توشہ خانہ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ماتحت تھا۔ لیکن 1973 میں اسے کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا۔ صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ‘ایس اینڈ جی اے ڈی’ کے ماتحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
قانون کے مطابق ملنے والے تمام تحائف پہلی فرصت میں توشہ خانہ میں جمع کرانا ضروری ہے۔
کیبنٹ ڈویژن ایسے تحائف کی قیمت کا تعین کر کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم، نیشنل کونسل آف آرٹس، وغیرہ سے تحفے کی نوعیت کے حوالے سے رجوع کرسکتی ہے۔ پرائیویٹ سطح پر بھی تحائف کی قیمت جانچی جاسکتی ہے۔
قیمت کا تعین کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں ‘پاکستان جیولری اینڈ جم اسٹونز ایسوسی ایشن’ کی نامزد کردہ ہوتی ہیں۔
رولز کے مطابق ایسا تحفہ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تک ہو۔ وہ تحفہ کسی قیمت کے بغیر ہی تحفہ وصول کرنے والے کو دیا جا سکتا ہے۔
ایسا تحفہ جس کی مالیت 10ہزار روپے سے زیادہ ہو وہ قیمت کا 15 فی صد ادا کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں چار لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا تحفہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کے سوا کسی کو رعایتی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے تحائف کو سال میں دو مرتبہ نیلامی میں فروخت کیا جاتا ہے اور خریداری کے لیے پہلی ترجیحی اسی فرد کو دی جاتی ہے جسے یہ تحفہ ملا ہوتا ہے۔
باقی بچ جانے والے تحائف عام نیلامی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ نایاب اور نوادرات کا درجہ رکھنے والے تحائف عجائب گھر میں رکھے جاتے ہیں۔
ماضی میں توشہ خانے کے ساتھ کیا ہوا؟
پاکستان میں ماضی میں توشہ خانہ میں آنے والے سامان کو کم رقم دے کر حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے صحافی رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دور میں صدر، وزیراعظم، اراکین پارلیمنٹ اور سرکاری عہدے دار خلاف ضابطہ ان تحائف کو اپنی ملکیت سمجھتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 1985 سے لے کر 2013 تک جتنے بھی صدور اور وزرائے اعظم آئے اُن سب نے ان تحفوں کو معمولی ادائیگیوں کے عوض اپنی ملکیت بنا لیا۔
رؤف کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں شوکت عزیز نے اپنے دور میں ملنے والے 1157 تحائف خود خریدے۔
رؤف کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے سال 2004 تک ملنے والے تحائف کا ریکارڈ رکھا۔ اس کے بعد ان کے دور حکومت کے اختتام تک ان کو ملنے والے تحائف کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔
ان کے بقول سابق صدر کو سابق امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے دو پستول تحفے میں دیے۔ جو ایک انہوں نے خود رکھا اور ایک امیر مقام کو تحفے میں دیا۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ اگر ان تحائف کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو قومی خزانے میں کروڑوں روپے جمع ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی حکمران یا افسر نے ایسا نہیں کیا اور ان تحائف کو اپنا ذاتی حق سمجھتے ہوئے حاصل کیا گیا۔