پاکستان کو بتا دیا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے، ٹلرسن

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اسلام آباد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ،

حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے یورپ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کا دورہ کیاجس میں انہیوں نے خطے کے راہنماؤں کو امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ اپنے دورے کے بعد انہوں نے نامہ نگاروں کو اپنے پاکستان کے دورے کے متعلق بتایا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستانیوں کو یہ بتانے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا کہ واشنگٹن نے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے اگر وہ تعاون نہیں کرتے تو امریکہ دوسرا طریقے سے عمل کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دھمکی نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم زمینی صورت حال سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز اور کئی دوسرے میڈیا چینلز کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستاان یہ کا م کرے۔ ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ آپ ایک خود مختار ملک ہیں۔یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔

یورپ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے اپنے سات روزہ دورے کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو یہ پیش کش کی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ان کے تنازعات کے حل میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں ۔ جب کہ دوسری جانب بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنا نہیں چاہتا۔

اعلی امریکی سفارت کا ر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو بتا دیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے لیے نئی حکمت عملی پر اسلام آباد کی مدد یا اس کی مددکے بغیر عمل کریں گے کیونکہ ان کے خیال میں یہ کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ کرنا نہیں چاہتے یا یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتے تو ہم اپنے یہ مقاصد کسی مختلف طریقے سے حاصل کریں گے۔

ٹلر سن نے کہا کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ احترام پر مبنی تعلقات ہیں ، لیکن ہم ایک بہت جائز اور قانونی کام کر نا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں ان کی مدد درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستانی حکام کو بتایا کہ آپ یہ کام کرسکتے ہیں، یا یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ یہ نہیں کریں گے۔اگر آپ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں بتا دیں۔ ہم اسے دوسرے طریقوں سے حل کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کر لیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارےلیے اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ عسکریت پسند پاکستان کی سرزمین پر ہیں یا وہ افغانستان کے علاقے میں ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کی سرحد کا حفاظتی نظام بہت کمزور ہے۔ ہماری دلچسپی مخصوص نوعیت کی معلومات سے ہے۔ ہم پاکستان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں مطلوبہ عسکریت پسندوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ہم ان کا خاتمہ کریں گے۔ ہم نے ان کے ذمے مخصوص کام لگایا ہے ، ہم نے انہیں معلومات کے تبادلے کی پیش کش کی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغانستان، پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کو جنوبی ایشیا سے متعلق صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کی وضاحت کی۔ اس حکمت عملی میں پاکستان کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ پاکستان خطے کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔پاکستان کے ساتھ ہمارے طویل عرصے تک مثبت تعلقات رہے ہیں، لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاکستان کچھ زیادہ حصہ ڈالنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان سے، جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہ ہوں، سب سے زیادہ فائدہ پاکستانی عوام کو پہنچے گا۔میں نے یہ اہم پیغام پاکستان کے وزیر اعظم ، پاکستانی فوج کے سربراہ اور اعلی عہدے داروں کو پہنچا دیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ پاکستان میں ان کا پہلا دورہ تھا اس لیے انہوں نے اپنا زیادہ وقت ان کی بات سننے میں گذارا۔ اس ملاقات سے دونوں فریقوں کو ایک اپنا موقف بیان کرنے کا موقع ملا۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق جنوبی اور مشرقی ایشیا کے امور کی معاون وزیر اور افغانستان اور پاکستان کے لیے قائم مقام خصوصی امریکی ایلچی ایلس ڈبلیو ویلز نے جمعے کے روز کہا کہ ہم نے پاکستان کو بتا دیا ہے کہ اس کے پاس دہشت گردی سے لڑنے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے چند ہفتے اور کچھ مہینے ہیں۔اگر اس نے یہ نہ کیا تو ہم صورت حال کے مطابق عمل کریں گے۔

ایلس کا کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی کے تحت ہم نے پاکستان سے کچھ مخصوص توقعات قائم کی ہیں کہ وہ کس طرح ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں پاکستان اپنے مفاد میں ان گروپس کے خلاف عملی اقدامات کرے گا جو اس کی سرزمین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ اسے عدم استحکام سے دو چار نہ کریں۔