امریکہ اور چین کا باہمی تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے اس توقع کا اظہار کیا کہ بہت جلد دونوں سربراہان بالمشافیٰ ملاقات کریں گے، جس دوران امریکہ چین تعلقات کی آئندہ کی راہ ہموار ہو سکے گی

امریکی وزیر خارجہ نے اتوار کے روز بیجنگ کے عوامی ہال میں صدر شی جنپنگ کے ساتھ 30 منٹ تک ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں راہنمائوں نے باہمی رشتے استوار ہونےکے 40 برس کے تاریخی دور میں چین امریکہ تعلقات کے فروغ سے متعلق گفتگو کی۔


واشنگٹن میں جاری ہونے والے ایک بیان میں، امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام ترجمان، مارک ٹونر نے بتایا کہ صدر شی اور وزیر خارجہ ٹلرسن نے چین اور امریکہ کے مابین وسیع تر تعاون کے مواقع پر اتفاق کیا؛ لیکن ساتھ ہی یہ بات تسلیم کی کہ اب اور آئندہ دونوں ملکوں کے اختلافات باقی رہیں گے۔

ترجمان نے کہا کہ وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے اس توقع کا اظہار کیا کہ بہت جلد دونوں بالمشافیٰ ملاقات کریں گے، جس دوران امریکہ چین تعلقات کی آئندہ کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

ریکس ٹلرسن نے چین کے صدر شی جنپنگ سے ملاقات میں بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ چین کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مستقبل میں دورے کے منتظر ہیں۔

صدر شی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انھیں ٹلرسن کے دورہ چین کے دوران اب تک کی ہونے والی ملاقاتوں پر پیش رفت پر خوشی ہے اور وہ اور ٹرمپ دو طرفہ تعلقات میں تعمیری پیش رفت کے لیے ایک نئے مرحلے کی توقع کرتے ہیں۔

ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اب تک کے ہونے والے "اعلیٰ سطحی رابطوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔"

"ہمیں معلوم ہے کہ مزید مذاکرات سے ہم ہم آہنگی کے عظیم مقصد کو حاصل کر لیں گے جو کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنے گا، اور مستقبل میں ہمارے تعلقات اور تعاون کے لیے سمت متعین کرے گا۔"

صدر شی کا کہنا تھا کہ ٹلرسن نے تعلقات کے اس نئے دور کے لئے بہت سی کوششیں کی ہیں۔

"آپ کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے تعلقات دوستانہ ہو سکتے ہیں، میں اس بات کو سراہتا ہوں۔"

چینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کے متعدد رابطے بھی ہو چکے ہیں۔

"ہم دونوں (ٹرمپ اور شی) کا یہ خیال ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعاون اب اس سمت میں آگے بڑھے گا جس کے لیے ہم کوششیں کرتے آئے ہیں۔ ہم دونوں تعمیری پیش رفت کی توقع کرتے ہیں۔"

ٹلرسن نے گزشتہ ماہ ہی امریکی وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا تھا اور یہ ان کا ایشیا کا پہلا دورہ ہے جس میں جنوبی کوریا اور جاپان کے بعد چین پہنچے ہیں۔