ٹلرسن کی آسیان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات

امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے 10 ملکوں پر مشتمل جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم "آسیان" کے تمام ارکان سے جمعرات اپنی پہلی ملاقات کی۔

امریکہ شمالی کوریا کی دھمکیوں سے نمٹنے اور واشنگٹن کے نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے 10 ملکوں پر مشتمل جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم "آسیان" کے تمام ارکان سے جمعرات کو اپنی پہلی ملاقات میں اس تنظیم کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام سے نمٹنے کے لیے یک آواز ہو جائیں۔

جنوب مشرقی ایشیا کے لیے نائب معاون وزیر خارجہ پیٹرک مرفی نے جمعرات کو ٹیلی فون پر ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ "امریکہ خاص طور آسیان میں اپنے شراکت داروں سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو محصولات کی ترسیل روک دیں۔۔۔ اور وہ سفارتی تعلقات کو بھی کم سطح پر رکھنے کے معاملے کا جائزہ لیں۔"

پیٹرک مرفی نے مزید کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ "شمالی کوریا اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کے عزائم کے لیے سفارتی ذرائع سے فائدہ نا اٹھا سکے۔"

آسیان کے تمام ملکوں کے شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، ان میں سے آٹھ ملکوں میں شمالی کوریا کے سفارت خانے موجود ہیں جب آسیان تنظیم میں شامل پانچ ممالک کے سفارت خانے پیانگ یانگ میں موجود ہیں۔

واشنگٹن نے کہا ہے کہ آسیان ممالک کو مشترکہ طور پر یہ تشویس ہے کہ شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے خطے اور دنیا کی سلامتی و استحکام کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر ریکس ٹلرسن نے اپنے ہم منصبوں سے خاص طور پر اپیل کی کہ جب مذاکرت جاری ہیں تو اس سے متعلق تمام فریق "بحیرہ جنوبی چین میں فوجی سرگرمیاں اور تعمیراتی سرگرمیاں روک دیں۔"

بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوآنگ نے کہا کہ بحیرہ جنوبی چین کا مسئلہ نا تو چین اور آسیان اور نا ہی امریکہ اور آسیان کے درمیان ہے۔

ترجمان نے معمول کی روزانہ کی بریفنگ کے دوران کہا کہ "بحیرہ جنوبی چین کا معاملہ چین اور چند آسیان ممالک کے درمیان ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ"ہم امید کرتے ہیں کہ خطے سے باہر کے ممالک، علاقائی ممالک کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین کے امن و استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہیں گے۔"