امریکی سیکٹری آف اسٹیٹ نے بدھ کو جاپان میں اپنے سہ ملکی دورے کا آغاز کیا جہاں وہ اتحادی ملکوں کو شمالی کوریا کی جانب سے جوہری اور مزائل خطرات کے مقابلے اور ان کے خلاف تعاون کا یقین دلائیں گے۔
پروگرام کے مطابق وہ جمعرات کو جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ابے اور وزیرِ خارجہ فومیو کِشیدہ سے ملاقات کریں گے۔
ٹلرسن جمعے کو جنوبی کوریا پہنچیں گے جہاں وہ قائم مقام صدر ہنگ جو وان اور وزیرِ خارجہ یُن بیونگسے کے ساتھ مذاکرات کریں گے، لیکن وہ کسی اپوزیشن رہنما سے نہیں ملیں گے۔
جاپان اور جنوبی کوریا جہاں امریکی فوجیں موجود ہیں، پہلے ہی شمالی کوریا کے میزائلوں کی پہنچ میں آتے ہیں، یہ ملک شمالی کوریا پر امریکہ کے سفارتی دباو اور معاشی پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکی نیوی کے ساتویں بیڑے کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق تینوں اتحادی ملک جزیرہ نما کوریا کو تقسیم کرنے والے مشرقی سمندر اور جاپان کے شمال میں فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔
ٹیلرسن آخر میں چین جائیں گے جہاں ان کا مقصد صدر شی جن پنگ سے ملنا ہے تاکہ شی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اپریل میں فلوریڈا میں ہونے والی کانفرنس کا ایجنڈا طے کیا جا سکے۔
ٹلرسن کے ساتھ اس دورے پر ایسے صحافی موجود نہیں ہیں جو عام طور پر سیکٹری آف اسٹیٹ کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ صرف ایک صحافی ایرن مک پائک گئی ہیں جو ایک قدآمت پسند ویب سائٹ انڈی پنڈنٹ جنرل ری ویو کی نمائندہ ہیں۔ جس پر واشنگٹن کے صحافتی حلقوں نے بدھ کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قائم مقام ترجمان سے سخت سوال کیے لیکن انہوں نے کہا کہ ایرن کا انتخاب ایک حلقے نے اس لیے کیا کہ سیکٹری آف اسٹیٹ کے دورے کی غیر روایتی کوریج کی جا سکے۔
مارک ٹونر نے کہا کہ اس دورے کے دوران میڈیا کو ٹرلسن سے سوالات کرنے کا موقع دیا جائے گا جس میں 17 امریکی صحافی بھی شامل ہوں گے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پہلے کہا تھا کہ ٹلرسن صحافیوں کو اپنے ساتھ نہیں لے کر جائیں گے کیونکہ وہ چھوٹے جہاز میں سفر کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ بوئنگ 737 پر گئے ہیں جس میں بعض خبر ایجنسیوں کے صحافی جا سکتے تھے جو اپنے سفر کے اخراجات خود اٹھاتے ہیں۔