امریکی سینیٹ کی کمیٹی میں ایک بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کے ملازمین کو سرکاری ڈیوائسز پر چینی ساختہ ایپ ٹک ٹاک استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ قانون سازوں کو خدشہ ہے کہ ٹک ٹاک استعمال کرنے والوں کا ذاتی ڈیٹا خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
نو ٹک ٹاک آن گورنمنٹ ڈیوائسز ایکٹ کو سینیٹر جوش ہولے نے پیش کیا اور ہوم لینڈ سیکورٹی اینڈ گورنمنٹ افیئرز نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اسے بعد میں منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
امریکی نوجوانوں میں ٹک ٹاک کی مقبولیت سے قانون سازوں میں اس تشویش نے جنم لیا ہے کہ ان کی ذاتی معلومات خطرے میں ہے اور انجام کار چین کے سرکاری حکام کو مل سکتی ہے۔
ٹک ٹاک پر مختصر ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں جن میں مزاح، رقص، مشہور گانوں یا ڈائیلاگ پر ہونٹ ہلانا یا ایسی ہی کوئی دلچسپ و عجیب حرکت ہوتی ہے۔ ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس کے ڈھائی کروڑ صارفین میں سے دو تہائی کی عمر 16 سے 24 سال کے درمیان ہے۔
چین میں 2017 میں متعارف کرائے گئے ایک قانون کے تحت تمام کمپنیاں ملک کے انٹیلی جنس اداروں سے تعاون کی پابند ہیں۔
اسی ہفتے ایوان نمائندگان نے 741 ارب ڈالر کا دفاعی پالیسی بل منظور کیا ہے جس میں یہ نکتہ شامل ہے کہ وفاقی حکومت کے ملازمین سرکاری ڈیوائسز میں ٹک ٹاک ڈاؤن لوڈ نہیں کریں گے۔ کانگریس مین کین بک کی اس تجویز کو 71 کے مقابلے میں 336 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔
ایوان نمائندگان اور سینیٹ کمیٹی میں منظوری کے بعد امکان ہے کہ یہ پابندی جلد قانون بن جائے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا بھی کہنا ہے کہ وہ ٹک ٹاک اور دوسری چینی ایپس پر وسیع تر پابندی پر غور کررہے ہیں اور ایسا اقدام جلد کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حال میں کہا تھا کہ امریکیوں کو ٹک ٹاک کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔
ٹک ٹاک کی ترجمان جیمی فاوزا نے کہا ہے کہ کمپنی کی امریکی ٹیم کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کا تحفظ کیا جائے اور ایپ کا استعمال محفوظ بنایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ لاکھوں امریکی خاندان تفریح اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سرکاری ڈیوائسز اس کام کے لیے مناسب نہیں ہیں۔