اب جال اور ہُک کے ذریعے مچھلی پکڑنے کو بھول جائیں کیوں کہ سائنس دانوں نے لیبارٹری میں تھری ڈی پرنٹڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے مچھلی بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔
حال ہی میں ایک اسرائیلی فوڈ ٹیک کمپنی 'اسٹیک ہولڈر فوڈز' نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پہلی بار تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے کھانے کے قابل مچھلی تیار کی ہے۔
کمپنی کے مطابق لیبارٹری میں تیار کی جانے والی اس مچھلی کا ذائقہ بھی زبر دست ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اسرائیلی کمپنی 'اسٹیک ہولڈر فوڈز' نے سنگاپور کی ایک کمپنی 'اومامی میٹس' کی شراکت داری میں مچھلی کےقتلے تیار کیے ہیں۔
کمپنی سب سے پہلے اصل مچھلی کے خلیوں کو نکالتی ہے پھر ان کی نشونما ہوتی ہے بعد ازاں اس میں 'بائیو انک' کا استعمال کرتے ہوئے فش فلے یا قتلے تیار کیے جاتے ہیں جن کا ذائقہ سمندر سے پکڑی جانے والی مچھلی جئسا ہی ہوتا ہے۔
کمپنی کو امیدے کہ وہ 2024 تک اپنی پہلی پروڈکٹ مارکیٹ میں لاسکے گی، جسے سب سے پہلے سنگا پور اور اس کے بعد امریکہ اور جاپان سمیت دیگر ملکوں میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اسٹیک ہولڈر فوڈز کے چیف ایگزیکٹو آرک کوف مین کا کہنا ہے کہ "میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک صاف ستھرا عمل ہے جس سے حاصل ہونے والی پروڈکٹ بھی اینٹی بائیوٹک سے پاک ہے۔ میرے خیال میں ہم مستقبل میں لیبارٹری میں تیار ہونے والے گوشت کے صحت مند ہونے کے فوائد کو سمجھیں گے۔"
یاد رہے کہ لیب میں تیار ہونے والا مرغی اور گائے کا گوشت دنیا میں پہلے ہی مقبول ہے لیکن چند ہی کمپنیاں سی فوڈ یعنی سمندری غذا تیار کر رہی ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کو مچھلی کو لیب میں تیار کرنے کے دوران کچھ چیلجنز کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ لیب میں گوشت تیار کرنے پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں لیب میں مچھلی بنانے ریسرچ اس سےکم ہے۔
اومامی فوڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو میہر پرشاد کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم 'گروپر' اور 'ایل' (مچھلی کی قسم) بنا رہے ہیں جب کہ ہم ایسی مچھلیوں پر بھی کام کر رہے ہیں جن کا وجود اب خطرے میں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سمندر سے حاصل ہونے والی مچھلیوں کی قیمت سے مقابلہ کرنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔