لاہور کے اسکول میں طالبہ پر تشدد، تین ساتھی طالبات کی 30 جنوری تک ضمانت منظور

فائل فوٹو

لاہور کی مقامی عدالت نے نجی اسکول میں طالبہ پر ساتھی طالبات کے مبینہ تشدد کیس میں تین طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرتے ہوئے پولیس کو انہیں 30 جنوری تک گرفتاری سے روک دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جمعے سے ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک طالبہ نے اپنی ساتھی طالبہ کو زمین پر پٹخ رکھا ہے اور اس کی گردن دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور دو دیگر طالبات بھی اس پر تشدد کر رہی ہیں۔

ایسے میں آس پاس کھڑے طلبہ بھی جملے کس رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بنائی جا رہی ہے۔ زمین پر گری طالبہ ایسے میں چیخ و پکار کر رہی ہے، لیکن کوئی اس کی نہیں سن رہا۔

ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ 16 جنوری کو لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں واقع امریکن انٹرنیشنل اسکول میں پیش آیا۔

تشدد کا نشانہ بننے والی طالبہ کے والد عمران یونس کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ اُن کی بیٹی نے اپنی ساتھی طالبات کو نشے سے منع کیا تھا جس کی پاداش میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ طالبہ نے اپنی ساتھی طالبات کی مبینہ طور پر نشہ کرتے ہوئے ویڈیوز اُن کے والد ین کو بھیجی تھیں جس پر وہ طیش میں آ گئیں اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔

ایف آئی آر میں قاتلانہ حملہ کرنے اور زیورات چرانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکول کے کچھ لڑکے اس سارے عمل کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہے۔

وائرل ویڈیو میں کچھ لڑکوں کی آوزیں بھی آ رہی ہیں جو لڑکیوں کو کہہ رہے ہیں کہ" چھوڑ دو اور جانے دو" جس پر نیچے لیٹی لڑکی پر بیٹھی دو لڑکیوں میں سے ایک جواب دیتی ہے کہ ـ "جب تک یہ معافی نہیں مانگے گی، اِسے نہیں چھوڑوں گی۔"

ملزمان کی اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید

لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج چوہدری ظفر اقبال نے ہفتے کو طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مدعی کی بیٹی خود نشے کی عادی ہے اور درخواست گزاروں کو بھی نشے کا عادی بنانا چاہتی تھی۔

مدعی کی بیٹی کی نشہ کرنے کی دعوت رد کرنے پر جھوٹے مقدمہ میں ملوث کیا گیا۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار مقدمہ میں شامل تفتیش ہونے اور مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اُنہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے اور عبوری ضمانت بھی دی جائے۔


مذکورہ اسکول لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں واقع ہے۔ وائس آف امریکہ نے واقعہ سے متعلق اسکول انتظامیہ سے رابطہ کیا لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کئے جانے کے باوجود واقعہ میں ملوث کسی لڑکی کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ پولیس کے مطابق وہ واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔

ایس پی انوسٹی گیشن لاہور کینٹ آفتاب پھلروان نے واقعے سے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس اس معاملے پر بھی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا کہ یہ واقعی منشیات کے استعمال کا معاملہ ہے یا نہیں۔ تاہم یہ ملزمان کے بیانات سامنے آنے کے بعد ہی واضح ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں، تاہم حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

منشیات کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ ہب کے سربراہ ذوالفقار شاہ بتاتے ہیں کہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں منشیات کے استعمال اور تشدد کا رحجان آئے روز بڑھتا جا رہا ہے جس کے خاتمے کے لیے اُن کی تنظیم کام کرتی رہتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی تنظیم کے پاس ماہانہ بنیادوں پر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن کے تدارک کے لیے وہ تعلیمی اداروں کے سرابراہوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ منشیات کا استعمال زیادہ تر تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں ہوتا ہے جہاں طلبہ میں اِس کے استعمال کا رجحان زیادہ پایا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ لاہور سمیت صوبہ پنجاب کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی اکثریت ایسی بھی ہے جو اپنے اساتذہ کے ڈر سے درس گاہوں کی حدود میں کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کرتے، البتہ وہ تعلیمی اداروں کی حدود سے باہر نشہ کرتے ہیں اور بعد میں تعلیمی ادارے میں آ جاتے ہیں۔