سمندر بردگی کے خطرے سے دوچار ممالک اور بین الاقوامی قانون

سمندر بردگی کے خطرے سے دوچار ممالک اور بین الاقوامی قانون

عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندروں کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے اور آئندہ چند عشروں میں کئی ساحلی ملکوں کے ڈوبنے کا خدشہ بڑھ رہاہے۔ کئی عالمی قانونی ماہرین اور سفارت کار یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کسی ریاست کے سمندر برد ہونے کے بعد اس خودمختاری کی حیثیت ہوگی؟ کیا وہاں کے باشندے اپنے ملک کے پاسپورٹ پر سفر کرسکیں گے اور کیا وہ کرہ ارض پر اپنا وجود کھونے کے باوجود اقوام متحدہ کارکن رہ سکے گا۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے سمندر کی سطح میں سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا تھا مگر اب یہ خدشہ ہے کہ پانی کی سطح بلند ہونے کی رفتار کئی سینٹی میٹر بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے جس سے آئیندہ کچھ سالوں میں کئی ساحلی ریاستوں کے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں موسموں میں عالمی تبدیلیوں سے سطح سمندر کے بلند ہونے کے قانونی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔ جس میں کسی ملک کی خودمختاری، شہریت، سفارتی درجہ ، کان کنی کے حقوق اور ایک قوم ہونے کے طور پر حاصل مراعات زیر بحث آئیں۔

آسٹریلیا کی نیوساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں شعبہ قانون کی پروفیسر روزمیری رے فیوز کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت دشوار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ریاستوں کی تخلیق کے بارے میں قوانین موجود ہیں ، لیکن کرہ ارض سے غائب ہوجانے والی ریاستوں کے متعلق کوئی قوانین موجود نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اگر جزائر پرمشتمل ایک ملک سمندر میں مکمل طورپر ڈوب کر غائب ہوجائے تو کیا اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت برقرار رہے گی؟ اس کے شہریوں کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ کیا وہ اپنے پاسپورٹ پر دوسرے ملکوں کا سفر کرسکیں گےاور اس ڈوبنے والے ملک کے ساحلی علاقوں سے معدنیات نکالنے اور ماہی گیری کےحقوق کا دعوی ٰ اور اس پر عمل درآمد کون کراسکے گا؟

بین الاقوامی قانون میں فی الحال ایسے سوالوں کے جواب موجود نہیں ہیں۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والے مارشل آئی لینڈ کے اقوام متحدہ کے لیے سفیرفلپ ملر کا کہنا تھا کہ نہ تو ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کسی کوفکر ہے، اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات سے نمٹنے پر کوئی دھیان دے رہا ہے ، جن کے بارے میں اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی وجہ سے سمندر وں کی سطح بلند ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلد کسی قانون معاہدے پر پہنچ بھی جائیں ، جو کہ میرے خیال میں نہیں ہوگا ، تو بھی اصل ذمہ دار اس پورے عمل سے باہر رہیں گے ۔

http://www.youtube.com/embed/lbJSnchxYew

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ان ذمہ داروں میں امریکہ اور چین جیسے بڑے صنعتی ملک شامل ہیں جوزیادہ تر کاربن ڈائی اکسائیڈ اور دوسری گرین ہاؤس گیسیں فضا میں چھوڑتے ہیں۔ آب وہوا سے متعلق سائنس دان ان گیسوں کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب قراردیتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ارتھ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ میری الینا کار کہتی ہیں کہ اس وقت سمندر کی سطح چند ملی میٹر سالانہ کی شرح سے بلند ہورہی ہے مگرسن 2100 تک پہنچتے پہنچتے اس رفتار میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

ان کا کہناتھا کہ سن 2100 تک سمندر کی سطح ایک میٹر تک بلند ہوچکی ہوگی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں زمین کے اوپر کی فضا میں حرارت کو روک لیتی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر پگھلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور سطح سمندر بلند ہوجاتی ہے ۔ سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے سے کئی جزیرے ڈوب سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف کولمبیا کی ماہر جینی گروٹے کاکہناتھا کہ اگر کسی قانونی کارروائی کا تعین نہ بھی کیا جا سکے تو بھی حکومتوں کو ماحولیاتی آلودگی بڑھانے اور بین الاقوامی انصاف کے تقاضوں کے تحت جزائر پر مشتمل ملکوں کے مسائل سمجھنے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔

کیپ ورڈے آئی لینڈ کے سفیر انتونیا لیما نے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑے ملکوں نے خطرے میں گھرے ہوئے چھوٹے جزائر کی مدد نہ کی تو ایک دن ان کا وجود بھی مٹنے کے خطرے سے دوچار ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم جزائر پر مشتمل ترقی پذیر چھوٹی ریاستیں ، باقی دنیا کی نگہبان ہیں، ہمارے ساتھ جوکچھ آج پیش آئے گا، کل باقی سب کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔

سائنس دان پیش گوئی کررہے ہیں کہ سمندروں کی سطح بلند ہونے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ملکوں کے ہی نہیں ، بڑے ملکوں کے ساحلی علاقوں کے ڈوبنے کا بھی خطرہ ہے ۔اس کانفرنس میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب فراہم نہیں کیے گئے لیکن اس کے ذریعے عالمی برادری کو ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ملکوں کے تحفظ کا اخلاقی چیلنج ضرور ملا ہے ۔