شام میں 70 ملکوں کے جنگجو موجود ہیں، رپورٹ

فائل

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں سرگرم غیر ملکی مجاہدین کی اکثریت عرب اور یورپی ملکوں سے تعلق رکھتی ہے جن کی کل تعداد 80 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق شام میں ساڑھے تین ہزار سے 11 ہزار تک غیر ملکی جنگجو صدر بشار الاسد کی حکومت کےخلاف لڑائی میں شریک ہیں جن کا تعلق 70 سے زائد ملکوں سے ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011ء کے اواخر سے دسمبر 2013ء کے دوران مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے تین ہزار 300 سے 11 ہزار تک جنگجووں نے صدر اسد کی حکومت کے خلاف جنگ میں شرکت کی غرض سے شام کا رخ کیا۔

رپورٹ کے مرتبین کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے اسد حکومت سے لڑائی کے لیے شام کا رخ کیا، یا لڑائی میں کچھ عرصہ شریک رہنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹ گئے یا لڑائی کے دوران مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔

رپورٹ برطانیہ کی پانچ یونیورسٹیوں کے مشترکہ ادارے 'انٹرنیشنل سینٹر فار دی اسٹڈی آف ریڈیکلائزیشن' نے 1500 مختلف حوالوں اور ذرائع کی مدد سے مرتب کی ہے جن میں ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات، خبریں، سرکاری اندازے، جہادی گروہوں کے بیانات اور سوشل میڈیا پر موجود معلومات بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں سرگرم غیر ملکی مجاہدین کی اکثریت عرب اور یورپی ملکوں سے تعلق رکھتی ہے جن کی کل تعداد 80 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ باقی 20 فی صد جنگجووں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا، شمالی امریکہ، افریقہ، بلقان اور سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاستوں سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق شام پہنچنے والے بیشتر غیر ملکی جنگجو 'القاعدہ' سے منسلک دو شدت پسند گروہوں، 'النصرہ فرنٹ' اور 'اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ' کے تحت لڑائی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں جاری لڑائی میں شریک غیر ملکیوں میں 18 فی صد کا تعلق مغربی یورپ سے ہے جن میں فرانس اور برطانیہ کے باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق شام میں جاری جنگ میں شریک مغربی یورپی باشندوں کی تعداد میں رواں سال اپریل سے دسمبر تک تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ رپورٹ میں صرف باغیوں کی جانب سے لڑنے والے جنگجووں کی تعداد کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور ان میں شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے وہ ہزاروں غیر ملکی جنگجو شامل نہیں جو مبینہ طور پر اسد حکومت کی طرف سے باغیوں سے جنگ کر رہے ہیں۔