امریکہ کے صدارتی انتخابات برائے 2020 کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش مند امیدواروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں جمعرات کو ڈیموکریٹ امیدواروں کے درمیان انتخابی مہم کا تیسرا مباحثہ ہوا جس میں امیدواروں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
تین گھنٹوں تک جاری رہنے والے مباحثے میں صدر ٹرمپ اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کے بعد دوسرا سرِ فہرست معاملہ امریکہ میں ہیلتھ کیئر رہا۔
ہیلتھ کیئر نظام امریکہ کا ایک اہم سیاسی اور سماجی مسئلہ رہا ہے جو ہر بار انتخابات میں سرِ فہرست ہوتا ہے۔
سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن تیسرے مباحثے کے دوران جارحانہ موڈ میں نظر آئے اور اپنے مخالف امیدواروں پر تنقید کرتے رہے۔ بائیڈن صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ پارٹی کے ٹکٹ کی دوڑ کے اہم ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔
چھہتر سالہ جو بائیڈن نے مباحثے کے دوران لبرل خیالات کے حامل اپنے حریفوں سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر الزبتھ وارن پر سخت جملے اچھالے۔
تیسرے مباحثے میں کل 10 امیدواروں نے حصّہ لیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق جلد اقدامات کرنے پر متفق نظر آئے۔ البتہ امریکہ میں ہیلتھ کیئر اصلاحات کے معاملے پر ان میں واضح اختلافات دکھائی دیے۔
جو بائیڈن اس مباحثے میں زیادہ وقت حاوی رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا موقف تھا کہ سینیٹر سینڈرز اور وارن ایسے ناقابلِ عمل منصوبے بنا رہے ہیں جن کی فنڈنگ کے لیے ان کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔
بائیڈن 'اوباما کیئر' کی مکمل بحالی کی وکالت کر رہے ہیں جو سابق صدر براک اوباما کے دور کا منصوبہ ہے اور جس کے کئی حصے ٹرمپ انتظامیہ معطل کرچکی ہے۔
مباحثے کے دوران بائیڈن کا کہنا تھا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس منصوبے پر آنے والے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ ان کے بقول انہیں پتا ہے کہ وہ یہ کیسے ممکن بنا سکتے ہیں اور اس منصوبے کی بحالی کیوں بہتر ہے۔
اپنے اوپر ہونے والی تنقید پر سینیٹر وارن اور برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ کے نظام میں کیا خرابی ہے اور اسے کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
وارن نے صحت کے شعبے میں اصلاحات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا جب کہ برنی سینڈرز نے کہا کہ ہر امریکی کے لیے ہیلتھ کیئر بنیادی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔
تینوں امیدواروں میں اس وقت لفظی جنگ بڑھ گئی جب انہوں نے امیگریشن پالیسی، تجارتی محصولات، عراق اور افغانستان کی جنگ پر بحث کی۔
البتہ تینوں امیدوار صدر ٹرمپ کو اقتدار سے بے دخل کرنے پر متحد نظر آئے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ایک بار ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے چھٹکارا حاصل کرلیں تو ہمارے پاس بہت مواقع ہوں گے۔
مباحثے کے دوران کیلی فورنیا کی سینیٹر کاملا ہیرس نے صدر ٹرمپ پر نفرت اور خوف پھیلانے کے الزامات عائد کیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ صدر ٹرمپ نے ڈھائی سالہ دورِ اقتدار میں 12 ہزار جھوٹ بولے۔
اب تک ہونے والے مباحثوں میں جو بائیڈن کی مضبوط پوزیشن برقرار دکھائی دے رہی ہے۔
انتخابی جائزے مرتب کرنے والے امریکی ادارے 'ریئل کلیئر پالیٹکس' کے مطابق 26.8 فی صد ڈیموکریٹس جو بائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے پر سینیٹر سینڈرز کو 17.3 فی صد جب کہ الزبتھ وارن کو 16.8 فی صد حمایت حاصل ہے۔
جو بائیڈن کے حامی سیاہ فام شہری اور ورکنگ کلاس سفید فام افراد بتائے جاتے ہیں جب کہ انہیں ٹرمپ کو ہرانے کے لیے سب سے بہتر امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ ان مباحثوں کے بعد فروری 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمریز اور 'کاکس' ووٹنگ کا سلسلہ شروع ہوگا جس کے اختتام پر حتمی امیدوار کا اعلان کیا جائے گا۔
منتخب امیدوار نومبر 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرے گا جو مسلسل دوسری مدت کے لیے ری پبلکن پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق ڈیمو کریٹ ووٹرز ایسے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیں گے جو خارجہ پالیسی، صحت، امیگریشن اور ٹیکس اصلاحات کے معاملے پر ان کے جذبات کی ترجمانی کے علاوہ صدر ٹرمپ کو شکست دینے کی بھی اہلیت رکھتا ہو۔
اس وقت تک سامنے آنے والے جائزوں کے مطابق سابق نائب صدر جو بائیڈن کے علاوہ سینیٹر کاملا ہیرس، سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر الزبتھ وارن ڈیموکریٹس کی نامزدگی کی مضبوط ترین امیدوار ہیں۔