طبی ماہرین دنیا بھر کے سینکڑوں نو عمر بچوں میں جگر کو نقصان پہنچانے والی پراسرار بیماری کے بارے میں فکر مند ہیں جس کے بارے میں اب تک دستیاب معلومات معدے کے ایک عام مسئلے کی جانب اشارہ کرتی ہیں ، لیکن ماہرین اسے عمومی طور پر جگر کی بیماریوں سے نہیں جوڑ رہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وائرس متاثرہ بچوں کے خون میں تو موجود تھا لیکن ان کے انفکش زدہ جگر میں اس کا سراغ نہیں ملا۔
فرانس کے مالیکولر جنیٹکس ماؤنٹ پلیئر میں وائرس پر تحقیق کرنے والے ایک سائنس دان ایرک کرمر کہتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا اس مرض سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ان کا اشارہ متاثرہ بچوں کے معدے میں پایا جانے والا ایک وائرس تھا جس کی موجودگی ان کے جگر میں نہیں تھی۔
ایک درجن سے زیادہ ملکوں کے صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، جگر کے مرض سے منسلک اسرار کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا معدے کی مذکورہ خرابی میں کوئی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ؟ کیا متاثرہ بچے کرونا وبا کے سامنے کمزور ثابت ہوئے ہیں ؟ آیا یہ معدے کو متاثر کرنے والے وائرس کی جنیاتی طور پر تبدیل شدہ صورت ہے؟ یا یہ جسم کے مدافعتی نظام کا کرونا وائرس یا کسی اور وائرس کے خلاف ردعمل ہے۔
بیماریوں کی روک تھام اور کنڑول کے امریکی ادارے سی ڈی سی اور دنیا بھر کے صحت کے ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے اور بچے اس کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟
Your browser doesn’t support HTML5
سی ڈی سی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جگر کے اس پراسرار مرض میں مبتلا امریکہ کے 180 ممکنہ کیسز میں سے زیادہ تر بچے اسپتال میں داخل ہوئے، جن میں سے 15 بچوں کے جگر کی پیوندکاری کرنا پڑی جب کہ چھ بچے ہلاک ہو گئے۔
20 سے زیادہ ملکوں میں اس بیماری کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ اس نامعلوم مرض میں مبتلا بچوں کی اکثریت کا امریکہ اور برطانیہ میں دیکھی گئی ہے۔
پراسرار مرض کی علامات کیا ہیں؟
اس مرض کی علامات میں ہیپاٹائٹس جیسی کیفیت، یا جگر میں سوزش کا ہونا ، جس میں بخار، تھکاوٹ، بھوک کی کمی ، جی متلانا، قے ، پیٹ کا درد ، گہرے رنگ کا پیشاب ، جوڑوں کا درد اور یرقان شامل ہیں۔
پراسرار مرض کب شروع ہوا؟
یہ بیماری ایک مہینہ قبل ہی ظاہر ہونا شروع ہوئی ہے۔متاثرہ بچوں کے ٹیسٹوں میں جگر کی سوزش کی عمومی وجوہات، مثلاً یرقان، ہیپاٹائٹس کے وائرس کی اقسام نہیں ملیں۔ زیادہ تر بچے ایسے علاقوں سے تھے جہاں یہ امراض موجود نہیں ہیں۔
تاہم ان بچوں میں معدے میں خرابی کا سبب بننے والا وائرس ایڈینو 41 پایا گیا،جب کہ یہ وائرس ان کے جگر میں موجود نہیں تھا۔ ایڈینو وائرس کی علامتیں نزلے سے ملتی جلتی ہیں جن میں بخار، گلے کی سوزش، آنکھوں کا گلابی ہونا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کے معدے اور آنتوں میں بھی سوزش ہو سکتی ہے۔
سی ڈی سی کے ایک ماہر ڈاکٹر اومیشن پارشر کہتے ہیں کہ جینیاتی تجزیوں سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جگر کے اس مرض کا ایڈنیو وائرس سے کوئی تعلق ہے۔ اس سے قبل یہ پتا چلا تھا کہ ایڈینو وائرس ان لوگوں میں پایا گیا جنہیں ہپاٹائٹس ہوا تھا یا جن کا مدافعتی نظام کمزور تھا۔
SEE ALSO: فضائی آلودگی پیدائش سے قبل بچوں کی صحت کس طرح متاثر کر رہی ہے؟بچوں میں پیٹ کے امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر ہیلی بھٹ جنہوں نے جگر کے پراسرار مرض میں مبتلا دو بچوں کا علاج کیا ہےان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ہر بچے میں ایڈنیو وائرس کا ٹیسٹ شروع کر دیں تو ہمیں بہت سے بچے مل جائیں گے۔ لیکن اس وائرس کا جگر کی بیماری سے کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے ایک چیز نوٹ کی کہ وہ کافی عرصہ پہلے کسی اور مرض میں مبتلا ہوئے تھے اور ان کا مدافعتی نظام کمزور تھا۔
سی ڈی سی کے مطابق فروری تک امریکہ میں 75 فی صد تک بچے کرونا وائرس سے متاثر ہوئے۔جن میں سے صرف 10 سے 15 فی صد بچوں میں جگر کی بیماری کی علامتیں دیکھی گئیں۔
لیکن طبی ماہرین پچھلے کچھ مہینوں میں ہونے والے کرونا کے انفیکشن کے تعلق سے سوچ رہے ہیں۔ امپیریل کالج لندن کے ایک طبی ماہر پیٹر بروڈین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس مرض کے پھیلاؤ میں آنت میں چھپے ہوئے کرونا وائرس کےبچے کچے عناصر کوئی کردار ادا کر رہے ہوں۔
کرونا وائرس پر شبہ کیوں ہے؟
اس ماہ کے شروع میں طبی جریدے لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، بروڈین اور ایک دوسرے سائنس دان نے کہا تھا کہ پرانا کرونا وائرس اور ایڈینو وائرس مل کر جگر کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ویسٹرن ریزویونیورسٹی کی ایک ابتدائی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جن بچوں کو کووڈ۔19 ہوا تھا ان میں جگر کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
برمنگھم کی الاباا یونیورسٹی میں بچوں کے معتدی امراض کے ماہر ڈاکٹر مارکس بوچ فلنر موسم خزاں کے پہلے امریکہ میں بچوں کے جگر کی پراسرار بیماری پر کام میں شامل تھے۔ چھ ماہ کے بعد اب ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب و غریب اور تشویش ناک بیماری ہے۔ ہم ابھی تک اس کے بارے میں واقعی کچھ نہیں جانتے۔