ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ انہیں خلیج فارس کے ایک جزیرے میں ایک قدیم قصبے کی باقیات ملیں ہیں جہاں زیادہ تر لوگ سمندر سے موتی ڈھونڈنے کےپیشے سے منسلک تھے۔
’ام القیوین‘ کے جزیرے سینیہ کے اس قبصے کی باقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں سینکڑوں مکانات تھے جن میں ممکنہ طور پر ہزاروں افراد رہتے تھے۔اس قبصے کا تعلق 6 صدی عیسوی سے تھا ۔ اسی صدی کے آخر میں اس خطے میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ قدیم تاریخی حوالوں میں ایسے قصبوں کا ذکر ملتا ہے جہاں سمندر سے نکالے جانے والے موتیوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ متحده عرب امارات کے خلیج فارس کے علاقے میں موتیوں والے ایک قصبے کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔
متحدہ عرب امارات یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹموتھی پاور نے کہا ہے کہ یہ خلیجی علاقے میں موتیوں والے قدیم ترین قصبے کی دریافت کی ایک اہم مثال ہے۔
موتیوں کا قصبہ جزیرہ سینیہ پر واقع ہے ۔ اس جزیرے کے نام کا مطلب ہے "چمکتی ہوئی روشنیاں" ۔ جس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں بہت پہلے ماہرین آثار قدیمہ نے 1400 سو سال پرانی ایک خانقاہ کی باقیات دریافت کی تھیں جو سورج کی روشن اور گرم کرنوں میں چمک رہی تھیں۔موتیوں کا قصبہ اس خانقاہ کے جنوب میں تقریباً 24 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
پاور نے بتایا کہ ماہرین آثار قدیمہ نے وہاں ساحلی پتھروں اور چونے کے پلستر سے بنے مکانوں کی باقیات دریافت کیں جن میں چھوٹے چھوٹے گھروں سے لے کر بڑی حویلیاں بھی تھیں۔ جو معاشرتی تقسیم کو ظاہر کرتی ہیں۔
پاور کا مزید کہنا تھا کہ ان باقیات سے ظاہرہوتا ہے کہ اس قصبے میں سال بھر رہائش رکھی جاتی تھی، جب کہ کئی دوسری جگہوں پر رہائش سال کے اس حصے میں ہوتی تھی جب وہاں سمندر سے سیپیاں اور موتی نکالنے کا کام ہوتا تھا۔
قصبے کے مکانوں سے آثار قدیمہ کے ماہرین کو ناپختہ حالت میں موتی اور سمندر میں ڈبکی لگانے کا سامان میں ملا ہے جس کی مدد سے وہ تیزی سے پانی کی تہہ میں پہنچ کر جلدی سے اوپر آجاتے تھے۔ کیونکہ اس عمل کے دوران انہیں اپنا سانس روک کر رکھنا پڑتا تھا۔
ام القیوین کے محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ، متحدہ عرب امارات یونیورسٹی، امارات میں اطالوی آثار قدیمہ کے مشن اور نیویارک یونیورسٹی میں قدیم دنیا کے مطالعہ کے انسٹی ٹیوٹ نے کھدائی میں حصہ لیا۔ ام القیوین اس جگہ ایک سیاحتی مرکز بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ ام القیوین، متحدہ عرب امارات میں شامل سب سے کم آبادی والی ریاست ہے ۔
یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ دس ہزار سیپیوں میں سے صر ف ایک سیپی ایسی ہوتی ہے جس کے اندر موتی موجود ہوتا ہے۔ ایک موتی ڈھونڈنے کے لیے دس ہزار سیپیوں کو کھول کر کھنگالنا بلاشبہ ایک صبر آزما کا م ہے۔
لیکن سائنس کی ترقی نے موتیوں کے کام کو بہت آسان بنا دیا ہے کیونکہ اب زیادہ تر موتی مصنوعی طریقے سے پیدا کیے جاتے ہیں لیکن واٹر پرلز اکثر سونے سے بھی مہنگے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)