|
ویب ڈیسک — برطانیہ میں چار جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد 14 برس بعد لیبر پارٹی نے حکومت بنا لی ہے اور بادشاہ چارلس سوم کی منظوری کے بعد لیبر رہنما کیئر اسٹارمر نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب بھی سنبھال لیا ہے۔
لیکن واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر کو وزیرِ اعظم بننے کے لیے بادشاہ سے منظوری لینا ضروری تھا۔
جمعے کو لیبر پارٹی کے سربراہ نے شاہی آداب کے مطابق برطانوی فرماں روا سے ملاقات کی جہاں انہیں بادشاہ نے باضابطہ وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالنے کی دعوت دی۔
مبصرین کے مطابق برطانوی سیاست میں یہی وہ موقع ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے سیاسی اختیار منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کو منتقل ہونے کے باوجود، کم از کم تکینکی طور پر، حقِ حکمرانی کا منبع شاہی اختیار ہی ہے۔
برطانیہ میں حکومت سازی کا عمل بہت تیزی سے انجام پاتا ہے جس میں کچھ اس انداز سے رسمی کارروائی آگے بڑھتی ہے۔
روایت اور جدت کا ملاپ
برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جہاں بادشاہ کے اختیارات قوانین اور روایات کے دائرے میں محدود ہیں۔ تاہم حکومت سازی کی رسمی کارروائی میں جو مراحل آتے ہیں وہ دراصل ماضی کی بازگشت ہیں۔
بادشاہ کی جانب سے اکثریتی پارٹی سربراہ کو حکومت سازی کے لیے طلب کرنا بھی دراصل ماضی کے اسی دور کی یاد گار ہے جب برطانوی فرماں روا کے پاس تمام اختیارات تھے اور وزیرِ اعظم صرف امور مملکت چلانے کے لیے مقرر کیا جاتا تھا۔
SEE ALSO: دنیا میں کہاں کہاں بادشاہت سلامت ہے؟
ماضی کی طرح بادشاہ وزیرِ اعظم کو مقرر تو نہیں کرتا لیکن آج بھی بادشاہ کی جانب سے اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کو اس کی باقاعدہ دعوت موصول ہونا ضروری ہے۔
برطانوی شاہی خاندان کی تاریخ کی پروفیسر اینا وائٹلاک کہتی ہیں کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک آئینی بادشاہت ہے جہاں شاہی فرماں روا اور وزیر اعظم ساتھ ساتھ اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہیں۔
شاہی محل میں کیا ہوا؟
برطانوی فرماں روا نے وزیرِ اعظم رشی سونک کا استعفیٰ قبول کیا جس کے بعد کیئر اسٹارمر نے بکنگھم پیلس میں شاہ چارلس سے ملاقات کی۔
وائٹلاک کہتی ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم سے نئے وزیرِ اعظم کو اقتدار کی منتقلی تک یہی محدود وقت ہوتا ہے جب تمام اختیارات بادشاہ کے پاس چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ہی دیر بعد یہ منتخب حکومت کو منتقل بھی ہوجاتے ہیں۔
اقتدار کی منتقلی کے لیے ہونے والی اس رسمی تقریب کو ’دست بوسی‘ کہا جاتا ہے۔ البتہ اس میں منتخب وزیرِ اعظم بادشاہ کا ہاتھ نہیں چومتا۔
اس تقریب میں بادشاہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر کو وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالنے کی باضابطہ دعوت دیتا ہے جس کے بعد وزیرِ اعظم ان سے مصافحہ کرتے ہیں اور احترام سے بادشاہ کے آگے سر جھکاتے ہیں۔
SEE ALSO: جب پاکستان کی عدالت میں ملکہ الزبتھ کو سربراہِ مملکت ثابت کیا گیا
اقتدار کی متنقلی کے اس موقعے کی تصویر جاری کی جاتی ہے تاہم اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کہ اس دوران بادشاہ اور وزیرِ اعظم کے درمیان کیا گفتگو ہوتی ہے؟
روایت کے مطابق نو منتخب وزیرِ اعظم بادشاہ سے ملاقات کے بعد سرکاری گاڑی میں ٹین ڈاؤنننگ اسٹریٹ پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں بطور وزیرِ اعظم اپنا پہلا بیان جاری کیا ہے۔
اس موقعے پر وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے عملے نے انہیں خوش آمدید کہا۔ خطاب کے بعد وزیرِ اعظم ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنی سرکاری ذمے داریاں ادا کرنا شروع کردی ہیں۔
شاہی رسم کیوں اہم ہے؟
وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے ہونے والی یہ ساری رسمی کارروائی کم از کم اس بات کا اظہار ہے کہ دشمنی کی سطح تک پہنچنے والی سیاسی تقسیم کے دور میں بھی بادشاہ برطانیہ میں استحکام اور تسلسل کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
بادشاہ سیاست سے بالا تر ہو کر رسمی طور پر سہی ایک حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار منتقلی کی اپنی اعزازی ذمے داری ادا کرتے رہتے ہیں۔
شاہی امور کے ماہر جارج گروس کہتے ہیں کہ اکثر لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب رسمی کارروائیاں ہیں لیکن یہ بہت اہم ہیں کیوں کہ یہ اس حقیقت کا حصہ ہیں کہ برطانیہ میں بغیر فساد کے حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن موجودہ عالمی سیاست میں ان روایات کا جاری رہنا صحت مندانہ روایات کا تسلسل ہے۔
ملکہ الزبتھ دوم کے 70 سالہ دورِ فرماں روائی میں 15 وزرائے اعظم نے اپنی ذمے داریاں ادا کیں۔ شاہ چارلس کی تخت نشینی کو دو برس سے بھی کم عرصہ ہوا ہے اور ان کے دور میں دوسرے وزیرِ اعظم نے ذمے داریاں سنبھالی ہیں۔
بادشاہ حکومتی امور پر تبادلہ خیال کے لیے وزیرِ اعظم سے ہفتہ وار ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اگرچہ بادشاہ سیاسی طور پر غیر جانب دار رہتے ہیں لیکن اگر وہ ضروری سمجھیں تو وزیرِ اعظم کو ’مشورہ دینے اور خبردار‘ کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔
بادشاہ اور وزیرِ اعظم کی ان ملاقاتوں میں زیرِ بحث آنے والے امور صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔
اس تحریر کا مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔