اسرائیلی فوج کےایگور تودوران نے غزہ کی پٹی میں صرف 12 گھنٹے ہی گزارے تھے جب ایک میزائل ان کے ٹینک پر جا گرا جس کے نتیجے میں وہ اس طرح زخمی ہوئے کہ ان کی زندگی ہی بدل کر رہ گئی۔
وہ خود بتاتے ہیں کہ ٹینک کے اندر وہ اپنے زخم کی نوعیت دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ وہ اپنی ٹانگ سے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن سوال تو یہ تھا کہ کس حد تک ڈاکٹر ان کی ٹانگ کو بچا پائیں گے۔ تودوران اب ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
تودوران کی عمر 27 سال ہے اور وہ ریزرو فوجیوں کے دستے سے ہیں۔ ان فوجیوں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد رضاکارانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیے۔ ان کی دائیں ٹانگ کولہے کے نیچے سے کاٹ دی گئی ہے لیکن انہوں نے ایک مثبت رویہ برقرار رکھا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ الیکٹریشن بننے کی ان کی امیدیں پوری نہیں ہو پائیں گی۔
تودوران زخمی اسرائیلی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد میں شامل ہیں جو اسرائیلی معاشرے کا ایک ایسا طبقہ ہے جسے شدید ٹراما یا صدمےکا سامنا رہا ہے اور جس کی جدوجہد جنگ کی وہ قیمت ہے جو اس وقت تو نظر نہیں آتی لیکن آنے والے کئی برسوں تک اس کی شدت کو محسوس کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے علمبردار زخمیوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے فکر مند ہیں کہ ملک ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
غیر منافع بخش معذور ویٹرنز آرگنائزیشن کے سربراہ ایدان کلائمن کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اس کارروائی جیسا دائرہ کار اور اس طرح کی شدت کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ یہ تنظیم حالیہ اور اس سے پہلے کے تنازعات میں زخمی ہونے والے 50 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے کام کرتی ہے۔ کلائمن کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ان لوگوں کی بحالی کے لئے کام کرنا چاہئیے۔‘‘
اسرائیل کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سے ملکی سکیورٹی فورسز کے تقریباً 3,000 ارکان زخمی ہو چکے ہیں۔ اس وقت اس حملے میں لگ بھگ 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 240 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر اسرائیلی شہری تھے جبکہ ان میں 900 فوجی بھی شامل ہیں۔ حماس جنگجوؤں کے خلاف زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک 160 سے زائد مزید اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل کی اوپن یونیورسٹی میں سول ملٹری تعلقات کی تعلیم دینے والے یگل لیوی زخمیوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اگر معذور افراد کی شرح بڑھتی رہی جن کی بحالی کیلئے اسرائیل کو کوشش کرنی ہو گی، تو اس صورتحال کے اثرات طویل مدت تک جاری رہ سکتے ہیں اور معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘
جنگ کی وجہ سے غزہ میں فلسطینیوں کو بھی بے مثال مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ غزہ میں 21,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور55,000 سے زیادہ زخمی ہیں۔ اس چھوٹے علاقےکی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: غزہ: اپنے اعضاء بچائیں یا جان؟ زخمیوں کے لیے زندگی کا سب سے دشوار فیصلہاسرائیلی اب بھی بڑی حد تک جنگ کے مقاصد کا ساتھ دے رہے ہیں اور اسے زیادہ تر بقا کی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد تحفظ کے احساس کو بحال کرنا ہے جو حماس کے حملوں کے نتیجے میں مجروح ہوا ہے۔
ملک میں مرکزی دھارے کا میڈیا شاید ہی فلسطینیوں کی مشکلات کا احاطہ کرتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر یہودیوں کے لیے فوجی خدمات انجام دینا لازمی ہے وہاں فوجیوں کی قسمت ایک حساس اور جذباتی موضوع ہے۔
ہلاک ہونے والے فوجیوں کے ناموں کا اعلان ہر گھنٹے کی خبروں میں سر فہرست ہوتا ہے۔ ان کے جنازوں میں اجنبیوں کی بڑی تعداد اظہار یکجہتی کے لیے شریک ہوتی ہے۔ ان کے خاندانوں کو فوج کی طرف سے فراخدلانہ مدد ملتی ہے۔
اگرچہ زخمیوں کو ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے تاہم تاریخی طور پر ان کا تذکرہ جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کی داستانوں میں چھپ جاتا ہے۔ ان کی خدمت اور بقا کی کہانیاں سننے والے زخمیوں کو ایک نئی حقیقت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
یہ صورتحال کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن، چیلنج کرنے والی اور تنہا کر دینے والی ہو سکتی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہےکہ اس جنگ میں زخمیوں کی غیر معمولی بڑی تعداد آنے والے برسوں میں اس تنازعے کی واضح یاد دلائے گی۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیرِ اعظم کا غزہ میں جنگ کو وسعت دینے کا عندیہ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہاسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیل کے سب سے بڑے ہسپتال شیبا میڈیکل سینٹر کا دورہ کیا اور زخمی فوجیوں کی قربانی کو سراہا۔ شیبا ہسپتال میں متعدد زخمیوں کا علاج اور بحالی کا کام کیاہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آپ حقیقی معنوں میں ہیرو ہیں۔‘‘ جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجیوں اور شہریوں کو شیبا ہسپتال میں راہداریوں میں رکھنا پڑا یا وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرونی ڈیک پر ٹھہرے۔ ہسپتال میں زخمی فوجیوں کے بستروں کو فٹ بال کے سازو سامان اور اسرائیلی پرچم کی طرح سجا دیا گیا تھا۔
اسپتال کے میدان میں دھوپ میں لیٹے ایک شخص نے 7 اکتوبر کو نووا میوزک فیسٹیول میں اپنی ایک ٹانگ کھو دی تھی۔ ان کی وہیل چیئر قریب ہی رکھی تھی۔
اسرائیلی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ زخمیوں کی مدد کے لیے ’’بھرپور صلاحیت‘‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے اور قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے مزید ملازمین کو بھرتی بھی کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
22 سالہ جوناتھن بین ہامو کی بائیں ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دی گئی۔ وہ بلڈوزر پر راکٹ سے چلنے والے دستی بم کا شکار ہوئے تھے۔ اس وقت وہ دوسرے فوجیوں کے لیے راستہ صاف کرنے میں مدد کر رہے تھے۔ وہ پہلے ہی اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ریاستی مالی اعانت سے فراہم کی جانے والی مصنوعی ٹانگ استعمال کر سکیں گے۔
بین ہامو نومبر کے اوائل میں اس واقعے کے بعد سے زیادہ تر وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بالآخر وہ فوجی کمانڈرز کے کورس میں شرکت کی امید رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے اپنے زخمی ہونے پر شرمندگی نہیں ہے۔‘‘ بین ہامو کہتے ہیں، ’’میں غزہ کے اندر ہونے والی جنگ میں اپنے ملک کے لیے زخمی ہوا تھا اور مجھے اس پر فخر ہے.‘‘
لیکن غیر منافع بخش معذور ویٹرنز آرگنائزیشن کے سربراہ ایدان کلائمن 1990 کی دہائی کے اوائل میں غزہ کی پٹی میں ایک آپریشن میں زخمی ہوئے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اسرائیلی حکام صورتحال کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خطرہ، صدر بائیڈن کے لیے بڑا چیلنجسابق معذور فوجیوں کے گروپ کو شبہ ہے کہ زخمی فوجیوں کی ضرورتیں زیادہ ہوں گی اور وہ اس مسئلےکو حل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم اپنی افرادی قوت میں تین گنا اضافہ کر رہی ہے۔ یہ تنظیم زخمی سابق فوجیوں کی بحالی کے مراکز کو بہتر کرنے میں مدد کے لیے مزید معالج اور ملازم فراہم کر رہی ہے۔
غیر منافع بخش معذور ویٹرنز آرگنائزیشن کے سربراہ ایدان کلائمن نے کہا کہ امکان یہ ہےکہ اس وقت زخمیوں کی تعداد 20,000 تک پہنچ جائے گی جب پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص ہونے والوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اگر زخمی فوجیوں کو ان کی ضرورت کے مطابق ذہنی اور جسمانی دیکھ بھال میسر نہیں ہوتی جس میں ان کے گھروں یا کاروں کو قابل رسائی بنانا بھی شامل ہے تو پھر ان کی بحالی مزید تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے یا ان کے افرادی قوت میں دوبارہ شامل ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
تل ابیب کے ایک تحقیقی مرکز انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی سٹڈیز کے ایک سینئر محقق ادیت شفران جٹل مین کہتے ہیں کہ’’ایسے زخمی بھی ہیں جن کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں اور انہیں ساری زندگی اپنے زخموں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘
(اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے)۔