برطانوی جریدے 'دی اکانومسٹ' نے اپنی رپورٹ میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیوں کو بھارت میں جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
'دی اکانومسٹ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متنازع شہریت بل اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) نے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکمراں جماعت کی متعصبانہ پالیسیوں کے باعث بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ نریندر مودی بھارت کو ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
بھارت میں 80 کی دہائی میں 'رام مندر' کی تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہب اور قومی شناخت کے معاملے پر تقسیم پیدا کر کے حکمراں جماعت فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این آر سی کے ذریعے غیر ملکیوں کی نشاندہی کے عمل سے بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ یہ عمل سالہا سال تک جاری رہ سکتا ہے، اس دوران عوامی جذبات مشتعل ہونے سے بھارت میں بے چینی رہے گی۔
عالمی شہرت یافتہ جریدے کے مطابق گزشتہ برس نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آںے کے بعد سے معیشت سست روی کا شکار ہے اور ان کے حالیہ اقدامات سے معیشت سے حکومت کی توجہ ہٹ رہی ہے۔
بی جے پی کا ردعمل
عالمی جریدے کی رپورٹ پر بھارت کی حکمراں جماعت نے سخت ردِ عمل دیا ہے۔
حکمراں جماعت کے اُمور خارجہ کے انچارج ڈاکٹر وجے چوتھوال نے ٹوئٹ کی کہ انگریز 1947 میں چلے گئے لیکن 'دی اکانومسٹ' کے ایڈیٹرز اب بھی لگتا ہے کہ 'کلونیل' دور میں ہیں۔
وجے چوتھوال نے کہا کہ "شاید اُنہیں یہ غصہ ہے کہ ان کی ہدایات کے باوجود 60 کروڑ ہندوستانیوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔"
اس سے قبل 'دی اکانومسٹ' کے انٹیلی جنس یونٹ نے گزشتہ برس بھارت کو جمہوری درجہ بندی میں 165 ممالک کی فہرست میں 51ویں نمبر پر رکھا تھا۔ بھارت کو 10 میں سے 6.9 کا اسکور دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ بھارت میں شہری آزادیوں پر قدغنوں کو قرار دیا گیا تھا۔
انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ مذہب کے نام پر شہریوں کی شناخت کا تعین کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شہریت بل اور دیگر متنازع اُمور کے باعث بھارتی حکومت کی توجہ معیشت سے ہٹ رہی ہے۔
شہریت قانون اور اس کی مخالفت
بھارت کی پارلیمان نے 12 دسمبر 2019 کو ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے 'مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے' چھ مذاہب کے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اس بل کو بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھارت کا سیکولر تشخص مسخ کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر بھارت کی نظریاتی اساس کو متاثر کر رہی ہے۔
مذکورہ بل کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت اتر پردیش، آسام اور دیگر ریاستوں میں پرتشدد ہنگاموں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں اور مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔