عینی شاہدین کا کہنا ہے منگل کو دارالحکومت بینکاک میں پولیس کی بھاری نفری دیکھی جارہی ہے لیکن تاحال تشدد کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین کو ہٹانے کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
تھائی لینڈ میں بدامنی کے خطرے کے پیش نظر ہنگامی سکیورٹی قوانین کا دائرہ کار بڑھائے جانے کے بعد حکومت مخالف مظاہرین نے منگل کو بینکاک میں مزید اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
پیر کو حزب مخالف کی قیادت میں مظاہرین وزارت خارجہ اور خزانہ کی عمارتوں کے بعض حصوں اور دیگر سرکاری عمارتوں مں گھسنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور ان کا یہ اقدام حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔
حکومت نے دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں داخلی سکیورٹی کا اضافی ایکٹ نافذ کر دیا جس کے تحت پولیس کو سڑکیں بند کرنے، کرفیو نافذ کرنے اور تلاشی کی کارروائیاں کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے منگل کو دارالحکومت بینکاک میں پولیس کی بھاری نفری دیکھی جا رہی ہے لیکن تاحال تشدد کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین کو ہٹانے کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
2010ء میں ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ اُن مظاہروں میں کم ازکم نوے افراد اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب فوج نے برطرف وزیراعظم تھاکسن شیناواترا کے حامی مظاہرین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ تھاکسن موجودہ وزیراعظم ینگلک شیناواترا کے بڑے بھائی ہیں۔
وزیراعظم ینگ لک شیناواترا یہ وعدہ کر چکی ہیں کہ پولیس ضبط کا مظاہرہ کرے گی۔
’’ میں نے اس بات پر اصرار کیا کہ حکومت لوگوں کے خلاف تشدد نہیں کرے گی۔ ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت آگے بڑھیں گے۔‘‘
مظاہرین کے ایک رہنما نیتیتھورن لاملیئا کا کہنا تھا کہ ان کا پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
’’ اس اقدام سے ہم یہ جاری کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس غیر جمہوری حکومت کو نہیں مانتے۔ ہم دنیا کی جمہوری حکومتوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ اس حکومت کی کوئی بات نہ سنے کیونکہ یہ آمریت ہے۔‘‘
مظاہرین نے وزیراعظم ینگ لک پر اپنے جلا وطن بھائی کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
کئی ہفتے قبل بڑے پیمانوں پر مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب استثنیٰ کا ایک بل سامنے آیا جس کے تحت تھاکسن کو ملک میں واپس آنے کی اجازت اور بدعنوانی کے الزام میں دو سال قید کی سزا سے بچایا جاسکتا تھا۔
اس بل کو سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا لیکن حزب مخالف کے مظاہرے جاری رہے، اتوار کو بھی ہزاروں افراد حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
دریں اثناء حکومت کے حامیوں نے بھی بنکاک اسٹیڈیم میں اپنا علیحدہ مظاہرہ کیا اور حزب مخالف کی طرف سے اپنے مظاہرے ختم کرنے تک اپنی ریلی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
پیر کو حزب مخالف کی قیادت میں مظاہرین وزارت خارجہ اور خزانہ کی عمارتوں کے بعض حصوں اور دیگر سرکاری عمارتوں مں گھسنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور ان کا یہ اقدام حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔
حکومت نے دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں داخلی سکیورٹی کا اضافی ایکٹ نافذ کر دیا جس کے تحت پولیس کو سڑکیں بند کرنے، کرفیو نافذ کرنے اور تلاشی کی کارروائیاں کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے منگل کو دارالحکومت بینکاک میں پولیس کی بھاری نفری دیکھی جا رہی ہے لیکن تاحال تشدد کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین کو ہٹانے کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
2010ء میں ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ اُن مظاہروں میں کم ازکم نوے افراد اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب فوج نے برطرف وزیراعظم تھاکسن شیناواترا کے حامی مظاہرین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ تھاکسن موجودہ وزیراعظم ینگلک شیناواترا کے بڑے بھائی ہیں۔
وزیراعظم ینگ لک شیناواترا یہ وعدہ کر چکی ہیں کہ پولیس ضبط کا مظاہرہ کرے گی۔
’’ میں نے اس بات پر اصرار کیا کہ حکومت لوگوں کے خلاف تشدد نہیں کرے گی۔ ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت آگے بڑھیں گے۔‘‘
مظاہرین کے ایک رہنما نیتیتھورن لاملیئا کا کہنا تھا کہ ان کا پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
’’ اس اقدام سے ہم یہ جاری کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس غیر جمہوری حکومت کو نہیں مانتے۔ ہم دنیا کی جمہوری حکومتوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ اس حکومت کی کوئی بات نہ سنے کیونکہ یہ آمریت ہے۔‘‘
مظاہرین نے وزیراعظم ینگ لک پر اپنے جلا وطن بھائی کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
کئی ہفتے قبل بڑے پیمانوں پر مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب استثنیٰ کا ایک بل سامنے آیا جس کے تحت تھاکسن کو ملک میں واپس آنے کی اجازت اور بدعنوانی کے الزام میں دو سال قید کی سزا سے بچایا جاسکتا تھا۔
اس بل کو سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا لیکن حزب مخالف کے مظاہرے جاری رہے، اتوار کو بھی ہزاروں افراد حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
دریں اثناء حکومت کے حامیوں نے بھی بنکاک اسٹیڈیم میں اپنا علیحدہ مظاہرہ کیا اور حزب مخالف کی طرف سے اپنے مظاہرے ختم کرنے تک اپنی ریلی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔