ینگ لک نے کہا کہ اُن کی کابینہ محدود اختیارات کے ساتھ برقرار رہے گی اور وہ خود عبوری وزیرِ اعظم کی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔
تھائی لینڈ کی وزیرِ اعظم نے پیر کو حکومت تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کیا، مگر اس اقدام کے باوجود ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکلے اور اُن سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین کا دارالحکومت بنکاک میں سرکاری دفاتر کے باہر اجتماع جاری تھا کہ وزیرِ اعظم ینگ لک شیناواترا نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمان کی تحلیل اور انتخابات کے لیے شاہی خاندان کی رضامندی چاہیں گی۔
ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے مختصر خطاب میں اُنھوں نے اپنی حکومت کی بڑے پیمانے پر مخالفت کو تسلیم کیا، اور واضح کیا کہ سرکاری ادارے مزید ’’انسانی جانوں کا زیاں‘‘ نہیں چاہتے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ تمام طرفین کا موقف جاننے کے بعد اُنھوں نے ’’پارلیمان کی تحلیل کے لیے شاہی فرمان کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
مگر ینگ لک نے کہا کہ اُن کی کابینہ محدود اختیارات کے ساتھ برقرار رہے گی اور وہ خود عبوری وزیرِ اعظم کی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔
ینگ لک کی جماعت کا کہنا ہے کہ وہ 2 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اُمیدوار ہوں گی۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ستھپ تھاسوبن نے کہا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بند نہیں کریں گے۔
حزبِ اختلاف کے قانون سازوں نے اتوار کو اکٹھے استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیرِ اعظم ینگ لیک نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ انتخابات کا اعلان اس صورت میں ہی کریں گی اگر اُن کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نتائج قبول کریں گے۔
حزبِ مخالف کے رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اُس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ینگ لک مستعفی ہو کر اقتدار غیر منتخب کونسل کو منتقل نہیں کرتیں۔
حالیہ مظاہروں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغاز کئی ہفتوں قبل عام معافی سے متعلق اس بل کے اجراء کے بعد ہوا جس کی مدد سے سابق وزیرِ اعظم تاکسن شیناواترا کو وطن واپسی اور بدعنوانی کے الزام میں دو برس قید سے بچ نکلنے کا موقع مل جاتا۔
سینیٹ نے یہ بل مسترد کر دیا تھا مگر مظاہرے پھر بھی جاری رہے۔
تاکسن شیناواترا وزیرِ اعظم ینگ لک کے بھائی ہیں اور اُنھوں 2009ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔
مظاہرین کا دارالحکومت بنکاک میں سرکاری دفاتر کے باہر اجتماع جاری تھا کہ وزیرِ اعظم ینگ لک شیناواترا نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمان کی تحلیل اور انتخابات کے لیے شاہی خاندان کی رضامندی چاہیں گی۔
ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے مختصر خطاب میں اُنھوں نے اپنی حکومت کی بڑے پیمانے پر مخالفت کو تسلیم کیا، اور واضح کیا کہ سرکاری ادارے مزید ’’انسانی جانوں کا زیاں‘‘ نہیں چاہتے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ تمام طرفین کا موقف جاننے کے بعد اُنھوں نے ’’پارلیمان کی تحلیل کے لیے شاہی فرمان کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
مگر ینگ لک نے کہا کہ اُن کی کابینہ محدود اختیارات کے ساتھ برقرار رہے گی اور وہ خود عبوری وزیرِ اعظم کی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔
ینگ لک کی جماعت کا کہنا ہے کہ وہ 2 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اُمیدوار ہوں گی۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ستھپ تھاسوبن نے کہا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بند نہیں کریں گے۔
حزبِ اختلاف کے قانون سازوں نے اتوار کو اکٹھے استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیرِ اعظم ینگ لیک نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ انتخابات کا اعلان اس صورت میں ہی کریں گی اگر اُن کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نتائج قبول کریں گے۔
حزبِ مخالف کے رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اُس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ینگ لک مستعفی ہو کر اقتدار غیر منتخب کونسل کو منتقل نہیں کرتیں۔
حالیہ مظاہروں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغاز کئی ہفتوں قبل عام معافی سے متعلق اس بل کے اجراء کے بعد ہوا جس کی مدد سے سابق وزیرِ اعظم تاکسن شیناواترا کو وطن واپسی اور بدعنوانی کے الزام میں دو برس قید سے بچ نکلنے کا موقع مل جاتا۔
سینیٹ نے یہ بل مسترد کر دیا تھا مگر مظاہرے پھر بھی جاری رہے۔
تاکسن شیناواترا وزیرِ اعظم ینگ لک کے بھائی ہیں اور اُنھوں 2009ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔