فوج کے سربراہ پرایتھ چان اوچا نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے جس میں، ان کے بقول، انہیں 15 مہینے لگیں گے۔
واشنگٹن —
تھائی لینڈ میں حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کرنے والے فوج کے سربراہ نے ملک میں عام انتخابات کے فوری انعقاد کا امکان مسترد کردیاہے۔
جمعے کی شام ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے سربراہ پرایتھ چان اوچا نے کہا کہ انتخابات سے قبل ملک میں اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے جس میں، ان کے بقول، انہیں 15 مہینے لگیں گے۔
گزشتہ ہفتے ملک کی نگران حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرایتھ کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے ذریعے ملک میں ایک قانون ساز کونسل قائم کی جائے گی جو وزیرِاعظم کے انتخاب، کابینہ کے تقرر اور نئے آئین کی تیاری کی ذمہ دار ہوگی۔
جنرل پرایتھ نے قانون ساز کونسل کے ساتھ ساتھ ایک اصلاحاتی کونسل قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جو، ان کے بقول، سیاسی و معاشی نظام میں وہ تمام اصلاحات کرے گی جو تھائی لینڈ کا معاشرہ چاہتا ہے اور جو تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
فوج کے سربراہ نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے اور انہیں ضروری اصلاحات کے نفاذ کے لیے درکار مہلت دے۔
قوم سے اپنے خطاب میں تھائی فوج کے سربراہ نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ سیاسی گروہ فوجی بغاوت کےخلاف احتجاج کرنے سے باز رہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کی صورت میں انہیں "تھائی عوام کو ان کی خوشیاں واپس لوٹانے کا اپنا مقصد " حاصل کرنے میں مشکل ہوگی۔
تھائی لینڈ میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی محاذ آرائی کے بعد جنرل پرایتھ نے 19 مئی کو ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تین روز بعد انہوں نے عبوری حکومت اور ملک میں فعال واحد قانون ساز ادارے سینیٹ کو چلتا کرکے انتظامی اختیارات بھی خود سنبھال لیے تھے۔
عبوری حکومت کی برطرفی کے بعد ملک کے معاملات جنرل پرایتھ کی قیادت میں فوجی افسران پر مشتمل 'نیشنل کونسل فار پیس اینڈ آرڈر' نامی ادارہ چلا رہا ہے جس نے ملک کے 12 صوبائی گورنروں اور اعلیٰ پولیس افسران کو بھی ان کے عہدوں سے برطرف کردیا ہے۔
مارشل لا قوانین کے تحت ملک میں پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہے اور عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کے احتجاج یا جلسے، جلوس میں شرکت سے گریز کریں۔
تھائی ذرائع ابلاغ پر بھی سخت سینسر شپ نافذ ہے اور فوجی افسران تمام اہم ملکی ٹی وی چینلوں کی نشریات اور اخبارات میں چھپنے والے مواد کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ملک میں کیبل پر 'بی بی سی' اور 'سی این این' جیسے بڑے غیر ملکی نیوز چینلوں کی نشریات بھی بند کردی گئی ہیں۔
مارشل لا کے نفاذ کے بعد سے ملک بھر میں رات کا کرفیو نافذ ہے جس کے باعث سیاحت بری طرح متاثر ہورہی ہے جو تھائی لینڈ کی معیشت کا اہم ستون ہے۔
دو سابق وزرائے اعظم سمیت ملک کے کئی اہم سیاست دان اور سماجی کارکن بھی فوج کی تحویل میں ہیں۔ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ان افراد کو حراست میں رکھنے کا مقصد مارشل لا کے خلاف کسی ممکنہ احتجاج کا راستہ روکنا ہے۔
جمعے کی شام ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے سربراہ پرایتھ چان اوچا نے کہا کہ انتخابات سے قبل ملک میں اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے جس میں، ان کے بقول، انہیں 15 مہینے لگیں گے۔
گزشتہ ہفتے ملک کی نگران حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرایتھ کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے ذریعے ملک میں ایک قانون ساز کونسل قائم کی جائے گی جو وزیرِاعظم کے انتخاب، کابینہ کے تقرر اور نئے آئین کی تیاری کی ذمہ دار ہوگی۔
جنرل پرایتھ نے قانون ساز کونسل کے ساتھ ساتھ ایک اصلاحاتی کونسل قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جو، ان کے بقول، سیاسی و معاشی نظام میں وہ تمام اصلاحات کرے گی جو تھائی لینڈ کا معاشرہ چاہتا ہے اور جو تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
فوج کے سربراہ نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے اور انہیں ضروری اصلاحات کے نفاذ کے لیے درکار مہلت دے۔
قوم سے اپنے خطاب میں تھائی فوج کے سربراہ نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ سیاسی گروہ فوجی بغاوت کےخلاف احتجاج کرنے سے باز رہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کی صورت میں انہیں "تھائی عوام کو ان کی خوشیاں واپس لوٹانے کا اپنا مقصد " حاصل کرنے میں مشکل ہوگی۔
تھائی لینڈ میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی محاذ آرائی کے بعد جنرل پرایتھ نے 19 مئی کو ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تین روز بعد انہوں نے عبوری حکومت اور ملک میں فعال واحد قانون ساز ادارے سینیٹ کو چلتا کرکے انتظامی اختیارات بھی خود سنبھال لیے تھے۔
عبوری حکومت کی برطرفی کے بعد ملک کے معاملات جنرل پرایتھ کی قیادت میں فوجی افسران پر مشتمل 'نیشنل کونسل فار پیس اینڈ آرڈر' نامی ادارہ چلا رہا ہے جس نے ملک کے 12 صوبائی گورنروں اور اعلیٰ پولیس افسران کو بھی ان کے عہدوں سے برطرف کردیا ہے۔
مارشل لا قوانین کے تحت ملک میں پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہے اور عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کے احتجاج یا جلسے، جلوس میں شرکت سے گریز کریں۔
تھائی ذرائع ابلاغ پر بھی سخت سینسر شپ نافذ ہے اور فوجی افسران تمام اہم ملکی ٹی وی چینلوں کی نشریات اور اخبارات میں چھپنے والے مواد کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ملک میں کیبل پر 'بی بی سی' اور 'سی این این' جیسے بڑے غیر ملکی نیوز چینلوں کی نشریات بھی بند کردی گئی ہیں۔
مارشل لا کے نفاذ کے بعد سے ملک بھر میں رات کا کرفیو نافذ ہے جس کے باعث سیاحت بری طرح متاثر ہورہی ہے جو تھائی لینڈ کی معیشت کا اہم ستون ہے۔
دو سابق وزرائے اعظم سمیت ملک کے کئی اہم سیاست دان اور سماجی کارکن بھی فوج کی تحویل میں ہیں۔ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ان افراد کو حراست میں رکھنے کا مقصد مارشل لا کے خلاف کسی ممکنہ احتجاج کا راستہ روکنا ہے۔