عالمی دہشت گرد گروپوں کی امریکہ کے خلاف حملہ کرنے کی صلاحیت کم ہو ئی ہے، قائم مقام معاون وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوی

قائم مقام معاون وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوی

امریکہ کے قائم مقام معاون وزیر دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوی کا کہنا ہے کہ وہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف حملے کیلئے عالمی دہشت گرد گروپوں کی افغانستان سے منصوبہ بندی، بھرتی، تربیت اور منظم کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔

امریکی سینٹ کی آرمد سروسز کمیٹی کی جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے دوران، کمیٹی کی رکن ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جونی ارنسٹ کا جواب میں کہنا تھا کہ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ امریکہ وہاں موجود ہے،جو افغان نیشنل ڈیفینس اور سیکیورٹی فورسز کی مدد کر رہا ہے۔

کمیٹی کے سامنے سماعت کے لئے پیش ہونے والے انڈو پیسیفک امور کیلئے قائم مقام امریکی معاون وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوی کا کہنا تھا کہ امریکہ کی موجودگی سے اس پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ عالمی دہشت گردی کے خطرےکی نوعیت میں گزشتہ بیس سال کے دوران تبدیلی آئی ہے۔

SEE ALSO: امن کا راستہ یا عالمی تنہائی؟ طالبان کو ایک راستہ چننا ہوگا: خلیل زاد

کمیٹی کے سربراہ، ڈیموکریٹ جماعت کے سینیٹر جیک ریڈ نے اپنے افتتاحی بیان میں کہا کہ صدر جو بائیڈن کے انخلا سے متعلق فیصلے کو اختتام کے طور پر نہیں بلکہ ایک ٹرانزیشن یا منتقلی کے طور پر دیکھنا چاہئیے۔ اور اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ امریکہ اپنی انسدادِ دہشتگردی کیلئے کی جانے والی کوششیں ختم کر دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو امریکہ سمیت دنیا میں کسی بھی ملک کے خلاف کسی منصوبہ بندی، سازش، یا دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہیں ہو نا چاہئیے۔

سینیٹر ریڈ کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس نے اپنی سال 2021 کیلئے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ داعش اور القاعدہ، بقول ان کے، امریکی مفادات کیلئے بیرون ملک سب سے بڑے خطروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کیلئے کی جانے والی کوششوں کے بعد، ان کی صلاحیتوں میں کمی آئی ہے۔

ہیلوی کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گرد گروپ کی کاروائیاں اب مشرق وسطیٰ، افریقہ، افریقہ کے شمالی حصوں میں جاری ہیں ، اور ان کی نوعیت میں گزشتہ 20 برسوں کے دوران تبدیلی آئی ہے۔ تاہم امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف، افغانستان سے کسی خطرے کے نمودار ہونے کے امکانات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں، ہیلوی کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تو ہو رہا ہے، لیکن امریکہ اپنے افغان شراکت داروں کے ساتھ پوری طرح سے کھڑا ہے، اور کسی دائمی امن کے قیام کے لئے اپنی سفارتی کوششوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان افواج بہادری کے ساتھ اپنے دشمنوں سے نمٹ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغان فوج کو روزانہ کی بنیاد پر جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، لیکن وہ لڑ رہی ہیں، اور وہ ایک ایسا ادارہ ہے، جس پر امریکی عوام کو فخر ہونا چاہئیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی فوج کے افغان مترجم مستقبل کے بارے میں پریشان​

ہیلوی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ یقیناً امریکہ چاہتا ہے کہ پچھلے 20 برسوں میں حاصل کی گئی کامیابیاں برقرار رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لئے محکمہ خارجہ، یو ایس ایڈ کے ساتھی اور اتحادی شرکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی اس میں برابر کی دلچسپی رکھتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہ رکھنے والے امریکی سینیٹر اینگس کنگ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری، ڈالروں کی، زندگیوں کی ہے۔ افغانستان میں دسیوں ہزاروں افراد زخمی ہوئے، اور اس کے باوجود ہم اس مقام پر کھڑے ہیں، ان کے بقول، ایک سال میں ہمیں علم ہو جائے گا کہ طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا ہے، اور ہم پھر وہیں کھڑے ہیں، جہاں سن 2001 میں کھڑے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔

سماعت کے دوران امریکی میرین کور کے بریگیڈئیر جنرل میتھیو جی ٹرولنگر بھی پیش ہوئے، جو کہ جائنٹ سٹاف کے سیاسی اور فوجی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہیں۔

کمیٹی کے رینکنگ رکن، ری پبلکن جماعت کے سینیٹر جِم ان ہوف کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے انخلا کی تکمیل کیلئے ایک ایسی تاریخ کا انتخاب کیا جانا، جب امریکی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گرد حملوں کو بیس برس گزر چکے ہونگے، اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ کیلنڈر کی بنیاد پر کیا گیا سیاسی فیصلہ ہے، اس کا تعلق افغانستان کے زمینی حقائق سے نہیں ہے۔ سینیٹر جم ان ہوف کے بقول، اس فیصلے پر ان سفارشات کی بنیاد پر نہیں پہنچا گیا، جو کانگریس میں موجود دونوں جماعتوں نےگزشتہ ایک عشرے کے دوران، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے صدور کو پیش کی تھیں۔

سینیٹر ان ہوف کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر، اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ "صدر بائیڈن کے نزدیک شرائط پر مبنی لائحہ عمل، افغانستان میں ہمیشہ کیلئے رہنے کا نسخہ ہے"۔ ان کا کہنا تھاکہ مجھے اس بیان سے، جسے بار بار دہرایا جا رہا ہے، تکلیف پہنچی ہے۔