مائیکل ہیڈن بتاتے ہیں کہ 11 ستمبر2001ءکے حملے کے وقت وہ اپنے دفتر میں موجود تھے۔ وہ امریکہ کی قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ تھے جس کا مقصد الیکٹرانک کمیونیکیشن کی نگرانی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ کا ایک ضروری فون آیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت القاعدہ کے ہر نیٹ ورک پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی جا رہی تھی۔ میں نےجارج ٹینٹ سے کہا کہ میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کس نے کیا ہے۔ ہم سب جانتے تھے کہ یہ القاعدہ نے کیا ہے۔
لیکن اگر سب جانتے تھے تو پھر اسے روکنے میں کیوں کامیاب نہ ہوے؟
ہیڈن کہتے ہیں کہ ہم نے منصوبے بنتے دیکھے ۔ہم نے ان کے نیٹ ورک کی بات چیت بھی سنی ، ہم نے القاعدہ کے سیلز میں کسی بڑی خبر کا انتظار بھی محسوس کیا مگر ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حملہ یہاں ہو گا۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کی تحقیقات کرنے والے کمشن نے انٹیلی جنس کی اس ناکامی کی تحقیقات کیں اور پھر اندازہ لگایا کہ مختلف خفیہ ایجنسیوں کے پاس مختلف قسم کی معلومات تھیں مگر وہ سب کسی ایک جگہ اکھٹی اور مربوط نہیں تھیں۔
نائین الیون کمشن کی تجویز پر 2004ء میں کابینہ کی سطح کا ایک نیا عہدہ قائم کیا گیا ،جس کا مقصد امریکہ کے خفیہ اداروں کی کوششوں کو منظم کر کے ان کی معلومات ایک جگہ اکھٹا کرناتھا ۔ یہ عہدہ خفیہ معلومات کے شعبے کے ڈائریکٹر کا تھا ، جس پر ڈینس بلیئر 2009ء سے 2010ء تک فائز رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ معلومات کی کمی کا نہیں بلکہ ان کے زیادہ ہونے کا تھا ۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کے پاس اتنی زیادہ معلومات آتی تھیں کہ تمام عملہ اور مشینیں ان میٕں سے ضروری معلومات اکھٹی نہیں کرپاتےتھے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کانگریس نےانسداد دہشت گردی کا قومی ادارہ قائم کیا ۔ تاکہ تمام خفیہ ایجنسیاں اپنی معلومات اسے فراہم کرسکیں۔
مائیکل لیٹر 2007ء سے مئی 2011ء تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے کہ حاصل کردہ کی کون سی معلومات کس وقت آپ کے کام آ سکتی ہیں۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور پاکستان پر مسلسل دباؤ نے القاعدہ کو وہاں تقریباً ختم کر دیا ہے۔ مگرانسداد دہشت گر دی کے ادارے کے سابق سربراہ لیٹر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر چہ القاعدہ کا مرکز ختم ہونے کو ہے ، مگر اس کی شاخیں دوسرے علاقوں میں آج بھی پھل پھول رہی ہیں۔جن میں صومالیہ کی الشباب جیسے گروپ ہیں جو القاعدہ جتنے ہی خطرناک ہیں۔
نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈایریکٹر ڈینس بلیئر کہتے ہیں کہ آج امریکہ کو دہشت گردی کے چھوٹے منصوبوں سے خطرہ ہے کیونکہ گیارہ ستمبر جیسے بڑے حملے ،جن میں مختلف ٹیمیں ملوث ہوں، ان کا سراغ لگانا آسان ہے ۔مگر چھوٹے پیمانے پر ایک یا دو افراد کی طرف سے کئے گئے حملوں کا پہلے سے پتا چلانا مشکل ہے جن سے کافی نقصان ہو سکتا ہے۔
انٹیلی جنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں بڑے پیمانے پر ترقی کے باوجود سو فیصد یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ دہشتگردی نہیں ہوگی کیونکہ غلطی کا امکان بہرحال موجود رہتاہے۔