دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مزید ہوشیاری درکار ہوگی

قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوجی

دہشت گردی کے ماہر کہتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ میں نہایت ہوشیاری سے کام لینا ہو گا کیوں کہ دشمن نے خود کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ حا ل ہی میں لاس انجیلیس میں مِلکن انسٹیٹیوٹ Milken Institute کی عالمی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے ممکن ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا ۔ بعض ناقدین دہشت گردی کی ایک حالیہ نا کام کوشش کا حوالہ دیتےہیں اور کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان اب بھی مئوثر رابطہ نہیں ہے۔ 2009 میں کرسمس کے روز نائیجیریا کے باشندے عمر فارو ق عبد المطلب نے ڈیٹرائٹ جانے والے ہوائی جہاز کو اپنےکپڑوں میں چھپے ہوئے دھماکا خیز مادے سے اڑانے کی کوشش کی۔ یہ واقعہ اس وارننگ کے باوجود ہوا جو ملزم کے والد نے اپنے بیٹے کے بارے میں نائجیریا میں امریکی عہدے داروں کو دی تھی۔

لیکن امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل ویزلی کلارک کہتے ہیں کہ 1996 میں القاعدہ کی طرف سے سعودی عرب میں امریکی فوجی عملے کے رہائشی علاقے پر بمباری اور ستمبر 2001 میں نیو یارک اور واشنگٹن پر حملوں کے بعد سے اب تک معلومات کا باہم تبادلہ بہت بہتر ہو گیا ہے ۔ ’’ہم نے انٹیلی جنس میں تعاون اور ایک دوسرے کو انٹیلی جنس فراہم کرنے کا مکمل نظام تیار کیا ہے۔ ہم نے اپنی ملکی ایجنسیوں کو جیسے ایئر پورٹ سکیورٹی کو مضبوط بنایا ہے اگرچہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ ہمارے دوست جو بیرونی ملکوں سے امریکہ آتے ہیں اس نظام کو سخت نا پسند کرتےہیں۔‘‘

کلارک کہتے ہیں کہ سکیورٹی کے اقدامات بڑی حد تک مئوثر ثابت ہوئے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں مزید حملوں کو روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں اگرچہ دشمنوں کے گروپ ایئر پورٹس کے حفاظتی نظام کو توڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ملکن انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کارمائیکل انٹریلیگیٹر کہتے ہیں کہ جب سے القاعدہ کو مجبوری افغانستان چھوڑنا پڑا اس نے خود کو نئے حالات میں ڈھال لیا ہے ۔ بظاہراب یہ گروپ ہمسایہ پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ایک بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے بہت سے گروپ اس سے وابستہ ہو گئے ہیں۔’’انھوں نے اپنے آپریشن کو ایک فرنچائز میں تبدیل کر لیا ہے۔ اس لیے اب وہ صرف پاکستان اور افغانستان میں نہیں بلکہ بہت بڑے علاقے میں پھیل گئے ہیں۔ وہ مراکش ،برطانیہ، انڈونیشیا، فلپائن، غرض دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجود ہیں۔‘‘

انسدادِ دہشت گردی کے ماہر ایرول سدرز کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنا دائرہ کار کافی پھیلا لیا ہے ۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر اور نئے لوگ بھرتی کرنے کے طریقوں پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ اب انہیں تربیتی کیمپوں کی یا کسی مرکز کی ضرورت نہیں۔ جہاں کہیں ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر کھلتا ہے وہیں مرکز قائم ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ گروہوں نے امریکیوں کو بھرتی کرنے کا اپنا طویل المدت مقصد حاصل کر لیا ہے۔

انور آولقیAnwar al-Awlaki جو انتہاپسند مذہبی شخصیت ہیں، امریکہ میں پیدا ہوئے تھے اور اب یمن میں ہیں۔عہد ے داروں کا خیال ہے کہ نائن الیون کے دو دہشت گردوں اور امریکی فوج کے ماہرِ نفسیات کے ندال ملک حسن کے ساتھ جنھوں نے گذشتہ سال فورٹ ہُڈ میں 13 افراد کو ہلاک کر دیا، ان کے روابط تھے۔سدرز کہتے ہیں کہ القاعدہ کا ایک رکن کیلے فورنیا سے ہے ۔’’آدم غدن کا تعلق ریاست کیلے فورنیا کی اورینج کاؤنٹی سے ہے۔ انور نیو میکسیکو میں پیدا ہوئے۔ ان کے پاس سان ڈیئگو سٹیٹ یونیورسٹی کی ڈگری ہے۔ عمر حمامی جو اب صومالیہ میں الشباب میں شامل ہے، ریاست الاباما میں پیدا ہوا تھا۔ جمعے کی شب وہ فٹ بال کے مقابلے دیکھنے جاتا تھا۔ اب وہ الشباب کا انٹرنیٹ ماسٹر ہے۔‘‘

یہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی عہدے داروں کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ حکام نے امریکی مسلمانوں کے لیڈروں کا تعاون حاصل کر لیا ہے جنہوں نے بہت سے نوجوان امریکی مسلمانوں کو انتہا پسندی کی راہ اختیار نہ کرنے پر آمادہ کیا ہے ۔

کیلے فورنیا میں قائم رینڈ کارپوریشن میں دہشت گردی کے ماہربرائن جینکنز کہتے ہیں کہ ایئر لائن سکیورٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکی ایئر پورٹس کا موجودہ نظام جس میں بیشتر مسافروں کو ایک ہی طرح اسکرین کیا جاتا ہے، مئوثر نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ طویل المدت کوشش ہو گی۔

دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مزید ہوشیاری درکار ہوگی

بش انتظامیہ کے دور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی اصطلاح کے استعمال سے غلط تاثر قائم ہوا۔ جنگ سے ہم عام طور سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی ایسی کارروائی ہے جس کی ایک واضح ابتدا اور واضح اختتام ہو۔ لیکن یہ کشمکش شاید کئی عشروں تک جاری رہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی واضح اختتام نہیں ہوگا بلکہ یہ بتدریج ختم ہو گی ۔

جینکنز کہتےہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ صحیح معنوں میں موجود ہے لیکن اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ کسی فردکے دہشت گردی کا شکار ہونے کا امکان انتہائی کم ہے، جیسے دس لاکھ میں ایک۔ لیکن جب دہشت گرد خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی کامیابی ہوتی ہے ۔