انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین کی توقعات کے مطابق، القاعدہ کی قیادت اب ایمن الظواہری کے ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن اُنھیں جو تنظیم ورثے میں ملی ہے وہ اُس سے بہت مختلف ہے جو دس برس قبل پہلی بار دنیا کی نظروں میں آئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایمن الظواہری میں قیادت کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے سینئر نامہ نگار، گیری تھامس نے اِس رپورٹ میں اِسی سوال کا جائزہ لیا ہے ۔
سنہ1984 میں مصری قید خانے سے نکلنے کے بعد، ایمن الظواہری ، اسامہ بن لادن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ چار سال بعد جب القاعدہ کی تنظیم قائم ہوئی تو وہ اس وقت موجود تھے۔ ’نیو امریکہ فاؤنڈیشن‘ کے برائن فشمین کہتے ہیں کہ دنیا کی بد نام ترین دہشت گرد تنظیم کی باگ ڈور سنبھالتے وقت، الظواہری کا سب سے بڑا اثاثہ القاعدہ سے اُن کا دیرینہ تعلق ہے۔
اُن کے الفاظ میں : ’ظواہری جانتے ہیں کہ القاعدہ کی ابتدا کس طرح ہوئی ، اور یہ بات اہم ہے ۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے اُن کا احترام کیا جاتا ہے کیوں کہ اُنھوں اِس گروپ کے تمام نشیب و فراز دیکھے ہیں اور آزمائش کی ہر گھڑی میں وہ بن لادن کے دستِ راست رہے ہیں۔تو اُن کی قیادت کا اہم ترین پہلو یہی ہے کہ وہ طویل عرصے سے القاعدہ سے وابستہ رہے ہیں۔‘
لیکن، اُنھوں نے جس تنظیم کی قیادت سنبھالی ہے وہ اُس سے بہت مختلف ہے جسے امریکہ پر نائن الیون کے دہشت گردی کے حملوں کی وجہ سے رسوا ئی ملی تھی۔ سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ ا ب القاعدہ کی بہت سی franchises یا شاخیں قائم ہو گئ ہیں۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ان گروپوں نے القاعدہ کا نام اپنا لیا ہے اور برائے نام اس کے نظریے کی پیروی بھی کرتی ہیں۔ لیکن سی آئی اے کے سیاسی اسلام کے تجزیے کے پروگرام کے سابق سربراہ عمیل نخلحہ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وہ مغرب کے خلاف عالمی جہاد کے مقاصد سے بھی پوری طرح متفق ہوں۔
اُن کے بقول: ’یمن ہو یا صومالیہ، سعودی عرب ہو، شمالی افریقہ ہو یا عراق، یہ تنظیمیں مقامی نوعیت کی ہیں۔ اور اگرچہ اِن کے ایجنڈے، نظریاتی اعتبار سے القاعدہ کے جہادی نظریے سے ہم آہنگ ہیں، اِن کے آپریشنز، اِن کے اہداف اور اِن کی شکایتیں مقامی نوعیت کی ہیں۔‘
مسٹر نخلحہ مزید کہتے ہیں کہ القاعدہ کی اِن مقامی شاخوں کے اثر و رسوخ میں مشرقِ وسطیٰ میں احتجاجوں کی لہر سے بھی کمی آئی ہے ۔
اُن کے الفاظ میں: ’احتجاج کرنے والے لوگوں کے ایجنڈے عملیت پسندی پر مبنی ہیں، کسی مخصوص نظریے پر نہیں۔یہ تمام تحریکیں القاعدہ کے بوجھ سے آزاد ہیں۔القاعدہ سینٹرل کی وہ کشش ختم ہوچکی ہے جو چند سال پہلے تک موجود تھی۔ تو اپنی طاقت کے باوجود، الظواہری کے لیے القاعدہ کی ساکھ بحال کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔‘
برائن فشمین کہتے ہیں کہ بن لادن ایک شعلہ بیان مقرر اور مسحور کن شخصیت کا مالک تھا۔ لو گ اُس کے وڈیو بڑے شوق سے دیکھتے تھے اور اُس کے شاعرانہ انداز ِ بیان سے متاثر ہوتے تھے۔ عمیل نخلحہ اور دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ الظواہری میں اپنے پیشرو کی یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں۔
مسٹر نخلحہ کہتے ہیں کہ بن لادن کی موت پر الظواہری نے اُس کی تعریف میں جو تقریر کی تھی، اُس میں اُنھوں نے بن لادن کی نقل میں اشعار پڑھے تھے ۔ میں نے وہ تقریر دیکھی اور اُس کا انداز بالکل بے کیف تھا جب کہ بن لادن کا عربی شاعری پڑھنے اور عرب تاریخ سنانے کا انداز لوگوں کے لیے بہت دلکش ہوتا تھا۔
بن لادن کا تعلق سعودی عرب سےتھا اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دوسرے جہادیوں اور خلیج کی ریاستوں کے عربوں کے درمیان جنھوں نے بیشتر پیسہ فراہم کیا تھا، کشیدگی موجود تھی۔ برائن فشمین کہتے ہیں کہ بن لادن سے قربت کے باوجود، الظواہری کی شخصیت خاصی متنازعہ ہے ۔ وہ خود کو ہمیشہ لیڈر سمجھتے رہے ہیں لیکن اُن کی توجہ مجموعی طور سے تنظیم پر نہیں بلکہ اپنے مفادات پر رہی ہے۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ الظواہری اتنے سمجھدار ضرور ہیں کہ اُنھوں نے القاعدہ کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے ۔ سنہ
2005 سے اُنھوں نے عراق میں القاعدہ کے لیڈر مصعب الزرقاوی کو انتباہ کیا تھا کہ وہ تشدد کے استعمال میں احتیاط کام لے کیوں کہ میڈیا میں سر قلم کیے ہوئے لوگوں کی تصویروں سے جہاد کے لیے عوامی حمایت کو نقصان پہنچتا ہے ۔
اُس کے اگلے سال امریکی فوجوں نے الزرقاوی کو ہلاک کر دیا۔ لیکن سی آئی اے کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر، لیون پنیٹا نے جمعرا ت کے روز کہا کہ عراق میں اب بھی اندازاً القاعدہ کے 1000 جنگجو موجود ہیں۔