دہشت گردی سیاحوں کو مشرق وسطیٰ سے دور رکھنے کا سبب

تحفظ سیاحوں کی اولین ترجیح ہے جس کے باعث وہ ایسی جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں جہاں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہو۔

تیونس میں جون میں سیاحتی مقامات پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سے مغربی ممالک کئی مرتبہ سفری انتباہ جاری کر چکے ہیں جس میں اپنے شہریوں کو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سفر کے دوران احتیاط برتنے یا اگر ممکن ہو تو وہاں سفر نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

حالیہ برسوں میں مغرب میں تیونس سے لے کر مشرق میں ترکی تک سیاحت پر بہت برا اثر پڑا ہے، کیونکہ یورپی اور امریکی سیاح اس انتباہ پر عمل کرتے ہوئے ان ممالک میں جانے سے گریز کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکی محکمہ خارجہ نے ’’دہشت گردی کی کارروائیوں اور امریکی شہریوں اور مفادات کے خلاف تشدد کے واقعات کے مسلسل خطرے‘‘ کے باعث امریکیوں کے لیے عالمی سفر کا انتباہ برقرار رکھا۔

برطانیہ اور ڈنمارک کی حکومتوں نے بھی اپنے شہریوں کو ناکافی تحفظ کے باعث تیونس سے نکلنے کی تاکید کی ہے، جس پر تیونس کے سیاست دانوں نے کہا ہے کہ یورپی حکومتیں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی شدت پسند یہی چاہتے ہیں۔

لندن میں تیونس کے سفیر نبیل عمار نے حال ہی میں ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ ’’سیاحت کو نقصان پہنچا کر، غیر ملکیوں کو ملک سے نکال کر، انہوں نے اس پورے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے اور بہت سے لوگوں کو روزگار سے محروم کیا ہے۔‘‘

’’ہوٹل بند ہو گئے ہیں اور یہ ایک اہم صنعت ہے۔ دہشت گردی کا ایک ذریعہ ناامیدی ہے۔ یہ (ناامیدی) ناصرف اس (دہشت گردی) کو بڑھاوا دیتی ہے بلکہ اس کا ایک بنیادی محرک بھی ہے۔‘‘

دریں اثنا داعش سے تعلق رکھنے والے پراپیگنڈا بازوں نے سفری انتباہ کا مذاق اڑاتے ہوئے اس ہفتے ایک آن لائن سفری کتابچہ جاری کیا ہے جس میں شام اور عراق میں قائم نام نہاد خلافت کو چھٹیاں منانے کا ایک زبردست مقام قرار دیا گیا ہے جہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے چشموں کا صاف پانی، اولمپک سائز سوئمنگ پول، خوبصورت باغات، شہد کی مکھیوں کی افزائش اور ماہی گیری کے مواقع موجود ہیں۔

مصر

مصر میں داعش سے وابستہ وادی سینا میں قائم جہادی گروپ حملے کرنے اور اپنے اہداف کے انتخاب کی حکمت عملی میں بتدریج ماہر ہو گیا ہے۔

جون میں ایک خود کش بمبار نے مصر کے جنوبی شہر لکسر میں کارنک معبد کے قریب اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔

گو کہ مصری حکام اپنی سیاحت کی صنعت کی اچھی کارکردگی پر بیانات دیتے رہے ہیں مگر 2011ء میں آنے والی نام نہاد عرب بہار کے بعد قاہرہ اور لکسر کے تاریخی مقامات سے ہونے والی آمدن میں 95 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اکثر سیاح بحیرہ احمر کے زیادہ محفوظ مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔

وزیر سیاحت خالد رامی نے اس سال کے پہلے نصف میں گزشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے میں اس شعبے کی آمدن میں 3.1 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔

مصری حکام کا اندازہ ہے کہ 2015ء میں ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ سیاح آ سکتے ہیں، جو 2010ء میں آنے والے ایک کروڑ 47 لاکھ سیاحوں کی تعداد سے کم ہے۔

اس سال روس اور ایشیائی ممالک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ مصر چین میں اپنے سیاحتی مقامات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرتا رہا ہے۔ سال 2000ء سے اب تک چینیوں کی بیرونی سیاحت ایک کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ کر 16 کروڑ 50 لاکھ ہو گئی ہے اور مصر سفر کرنے والے چینیوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اردن

اردن میں بھی سیاحوں کی تعداد اور اس شعبے سے ہونے والی آمدن میں تاریخی کمی دیکھی گئی، اس کے باوجود کہ وہاں آخری دہشت گرد حملہ 2005ء میں ہوا تھا جب خود کش بمباروں نے دارالحکومت کے تین ہوٹلوں پر حملہ کر کے 60 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

سیاحت سے ہونے والی آمدن عمومی طور پر اردن کی مجموعی ملکی پیداوار کا 15 فیصد رہی ہے۔ اس شعبے میں آمدن میں کمی سے ملکی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔

ایک زمانے میں پیٹرا اور دیگر مقامات پر سیاحوں کا رش رہتا تھا مگر اب یادگاری اشیا کے دکانداروں کا کہنا ہے کبھی کبھار تو انہیں کئی دن تک گاہک کی شکل نظر نہیں آتی۔ پیٹرا میں دس ہوٹل بند ہو چکے ہیں۔ 2010ء سے اب تک یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے انتباہ کے مطابق ’’اردن مین دہشت گردی کا خطرہ اب بھی زیادہ ہے۔‘‘ اگرچہ اردن علاقائی تنازعات کا حصہ نہیں مگر تحفظ سیاحوں کی اولین ترجیح ہے جس کے باعث وہ ایسی جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں جہاں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہو۔

برطانوی انتباہ

برطانیہ کا کہنا ہے کہ تیونس میں ہونے والے حملے میں 30 برطانوی شہری ہلاک ہو گئے تھے جس کے فوراً بعد حکومت نے کوئی واضح انتباہ جاری نہیں کیا مگر ایسے شواہد موجود تھے کہ دہشت گرد حملے دوبارہ کیے جا سکتے ہیں جس کے باعث سفری انتباہ جاری کرنا پڑا۔

مصر کی طرح اردن سیاحوں کی نئی منڈیاں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جن میں جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ حکام طبی سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ 2014ء میں اردن میں 250,000 غیر ملکی مریضوں کا علاج کیا گیا۔

مگر سیاحت میں بڑے پیمانے پر تبھی اضافہ ہو سکے گا جب دہشت گردی کا خطرہ کم ہو گا۔