پاکستان میں چند روز قبل مختلف تعلیمی اداروں سے ترقی پسند سوچ رکھنے والے اساتذہ کی برطرفی کے معاملے پر بحث کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن بعض ماہرین تعلیم ایسے اقدامات کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
چند روز قبل طلبہ حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم لاہور کے فارمین کرسچن (ایف سی) کالج کے لیکچرار ڈاکٹر عمار جان اور فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کانٹریکٹ ختم کر دیا گیا۔
دریں اثنا مصنف محمد حنیف کو بھی چند سمسٹرز کے بعد کراچی کی حبیب یونیورسٹی نے باہر کا راستہ دکھا دیا۔
حمد حنیف 'بی بی سی' اور کئی غیر ملکی اخبارات کے لیے کالم لکھتے ہیں جن میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر طنز کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بھی ترقی پسند خیالات کے حامل اور ریاست کی بعض پالیسیوں پر اختلافات پر مبنی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
ایسے میں پاکستان کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا اب ریاست لوگوں کی سوچ پر بھی پابندیاں لگانا چاہتی ہے؟
ان اساتذہ کو ہٹائے جانے پر بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے اساتذہ کو تنہا کیا جا رہا ہے تاکہ لبرل سوچ رکھنے والے طلبہ کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو پہلے لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) اور پھر اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی فارغ کیا جا چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تجزیہ کار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ سوال کرنے اور ریاستی بیانیے سے ہٹ کر سوچنے کی سزا ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اُن کے بقول وہ خود بطور استاد 31 سال تک ایسے ہی مصائب سے دوچار رہے۔
'ملک میں جمہوری اقدار کا فقدان ہے'
ڈاکٹر مہدی حسن پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے علاوہ کئی نجی یونیورسٹیز میں بھی پڑھاتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران انہیں چار مرتبہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانے سے روکا گیا یہاں تک کہ انہیں عدالت سے رُجوع کرنا پڑا۔ ان کے بقول ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کا مکمل فقدان ہے جو کچھ ہٹ کر سوچنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود کوئی بھی حکومت انتہائی دائیں بازو کی سوچ اور مذہبی انتہا پسندی کو ختم نہیں کر سکی۔ لہذٰا جمہوری حکومتیں ہونے کے باوجود یہی گمان رہتا ہے کہ شاید کسی آمر ہی کی حکومت ہے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہر تعلیم ڈاکٹر عارفہ سیدہ کا کہنا تھا کہ جو بیج 80 کی دہائی میں ضیا الحق کے مارشل لا دور میں بویا گیا وہی آج تک سب کاٹ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو پاکستان سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا جب پورا معاشرہ ہی انحطاط کا شکار ہے تو اساتذہ کی برطرفی پر حیرت کیسی؟
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ تینوں ترقی پسند سوچ رکھنے والے اساتذہ اب تک بھی کیسے پڑھاتے رہے کیوں کہ موجودہ دورِ حکومت تو کسی مارشل لا سے کم نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیز کی مالی معاونت کیوں کہ سرکار کرتی ہے اس لیے یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکومتی عمل دخل بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن پرائیویٹ یا نیم خود مختار تعلیمی اداروں کو ان اساتذہ کو ہٹانے کے لیے دباؤ پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
البتہ مذکورہ اساتذہ کو ہٹائے جانے پر یونیورسٹیز کی جانب سے بھی موقف سامنے آیا تھا۔ کراچی کی حبیب یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شعبہ ادب کو ازسر نو ترتیب دے رہے ہیں اس لیے محمد حنیف سے معذرت کی۔ ایف سی کالج انتظامیہ کا موقف تھا کہ کانٹریکٹ ختم کرنا یا اس میں توسیع کرنا کالج انتظامیہ کی صوابدید ہے۔
ڈاکٹر عارفہ یہ سمجھتی ہیں کہ صرف یونیورسٹیز کی انتظامیہ ہی ان برطرفیوں کی ذمے دار نہیں اس کی وجہ معاشرے میں عدم برداشت اور تیزی سے بڑھتی ذہنی تنزلی بھی ہے۔
اُن کے بقول بہت سے طلبہ اور اُن کے خاندان کے افراد بھی روشن خیال یا لبرل سوچ کے حامل اساتذہ کے خلاف شکایات سامنے لاتے ہیں۔ لہذٰا وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک ایسا بھنور بن چکا ہے جس سے آسانی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
دوسری جانب طلبہ کی مختلف نمائندہ تنظیمیں گزشتہ ایک سال سے اپنے حقوق کے لیے نہ صرف بات کر رہی ہیں بلکہ ملک میں طلبہ تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ سال طلبہ یونینز کی بحالی تحریک میں ڈاکٹر عمار جان سرگرم رہے۔ اُن پر گزشتہ سال غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا تھا جس پر وہ چند روز جیل میں بھی رہے۔
اس تحریک کے دوران کئی طلبہ کو بھی حراست میں لے کر اُن کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔
'دائیں بازو کی سوچ مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے'
ان مطاہروں میں پیش پیش طلبہ تنظیم کے رکن سلمان سکندر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بائیں بازو اور ترقی پسند طلبہ ایسے فیصلوں سے کافی پریشان ہیں۔
اُن کے بقول وہ محسوس کر رہے ہیں کہ بائیں بازو کے طلبہ کے متحرک ہوتے ہی ریاستی سرپرستی میں ایک بار پھر سے دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ کو تعلیمی اداروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ کالجز اور یونیورسٹیز میں بھی مختلف موضوعات پر مباحثوں کا اہتمام کیا جانے لگا تھا جن کی وجہ سے طلبہ میں اپنے حقوق کی بات کرنے کی ہمت بھی پیدا ہو رہی تھی اور وہ منظم ہو رہے تھے۔
اُن کے بقول منطقی سوچ اور مدلل مباحثوں کے اہتمام سے طلبہ کی سوچ کو وسعت مل رہی تھی۔ لیکن ایسی سوچ پروان چڑھانے والے اساتذہ کو فارغ کرنا معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
سلمان سکندر کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی اور ریاستی حوصلہ افزائی کے باعث دائیں بازو کی ایک ہی تنظیم سالہا سال سے تعلیمی اداروں میں سرگرم رہی۔
اُن کے بقول اگر طلبہ یونینز بحال ہو جاتیں تو انتخابات کے ذریعے ترقی پسند تنظیمیں الیکشن جیت سکتی ہیں جس سے ایک نیا منظر نامہ بنے گا جو دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ کو پیچھے دھکیل سکتا ہے۔
کیا بائیں بازو کے اساتذہ کے سیاسی مقاصد ہیں؟
اس پر ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب ایک عدالت میں بھی دے چکے ہیں جب ان کی یونیورسٹی سے برخاستگی کا کیس سنا جا رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ سیاست کرنے کی بات نہیں تھی نہ ہے بلکہ ایک استاد کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو اچھی اور بری اقدار میں فرق کرنا سکھائے۔
ان کے بقول اگر ملک کو اس کے بانی محمد علی جناح کی سوچ کے مطابق چلایا جاتا تو یوں جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی دھجیاں نہ اُڑائی جاتیں۔ ان کے مطابق ان مسائل کا حل ایک سیکولر نظام کے بغیر ممکن نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ہوئے لمز میں عمرانیات کی استاد اور مصنفہ ڈاکٹر ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ وہ یہ تو سمجھتی ہیں کہ ان برطرفیوں کا فوری اثر منفی ہی ہو گا۔ لیکن اُن کے بقول اساتذہ اور طلبہ تنظیمیں پہلے سے زیادہ متحرک اور منظم ہیں اس لیے یہ وہ اساتذہ کو ہٹائے جانے کے معاملے پر آواز بلند کرتی رہیں گی۔
البتہ بیشتر ماہر تعلیم ڈاکٹر عارفہ سیدہ کی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ سچ، عدل، منطق اور دلیل سے بات کرنے اور سمجھانے والوں کے لیے عمومی طور پر معاشرے میں جگہ کم ہو چکی ہے۔ جو تمام ایسے افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو تعلیم کو تربیت کا حصہ سمجھتے ہیں اور عدم برداشت اور غیر جمہوری رویوں کے بڑھتے رجحان سے خوف زدہ ہیں۔
ماہرین تعلیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر دائیں بازو کی سوچ کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ ہو تو معاشرتی اقدار میں مزید عدم برداشت اور انتہا پسندی بڑھے گی جو پاکستان کو ایک قدم آگے نہیں بلکہ پیچھے لے جائے گی۔