نئی دہلی —
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں 10 اپریل کو طلبہ کے دو گروپوں میں ہونے والے تصادم کی وجہ سے یونیورسٹی کیمپس میں اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔ تصادم کے نتیجے میں متعدد طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے طلبہ نے یونیورسٹی کے کاویری ہاسٹل میں نان ویج پکانے کی مخالفت کی تھی جس پر طلبہ میں تصادم ہوا تھا۔
اے بی وی پی کے طلبہ کا الزام ہے کہ 10 اپریل کو ہندووں کے ایک تہوار رام نومی کے موقع پر انھوں نے کاویری ہاسٹل میں پوجا کا انعقاد کیا تھا۔ بائیں بازو ’آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن‘ (اے آئی ایس اے)سے وابستہ طلبہ نے پوجا میں رخنہ اندازی کی اور ان پر حملہ کیا۔
بائیں بازو کے طلبہ کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے طلبہ نے ہاسٹل کے میس میں نان ویج پکانے کی مخالفت کی، جب کہ میس کے ضابطے کے مطابق اس روز نان ویج کی باری تھی۔ ان کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے طلبہ نے ان پر حملہ کیا جس میں کئی طلبہ زخمی ہو گئے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن ’جے این یو ٹیچرز ایسو سی ایشن‘ (جے این یو ٹی اے) نے تصادم سے متعلق یونیورسٹی رجسٹرار کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان پر اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
تصادم کے بعد رجسٹرار نے ایک بیان میں اے بی وی پی کے الزام کی تائید کی اور کہا کہ طلبہ کے ایک گروپ کی جانب سے کاویری ہاسٹل میں رام نومی کے موقعہ پر پوجا کی مخالفت کی وجہ سے تصادم ہوا۔
اساتذہ کی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وارڈن کی جانب سے پوجا کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی کسی نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔ اس کے بقول رجسٹرار کی جانب سے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا افسوسناک ہے۔
البتہ اساتذہ نے ریکٹر کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے جس میں انھوں نے کھانے پینے کی آزادی کی بات کہی تھی اور کیمپس میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کے ساتھ کہا تھا کہ کیمپس میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جنوری 2020 میں چہرہ چھپائے ہوئے نا معلوم افراد نے یونیورسٹی ہاسٹلسز میں داخل ہو کر طلبہ اور اساتذہ پر حملہ کیا تھا جس میں متعدد طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔اس وقت وہاں پولیس بھی موجود تھی لیکن بتایا گیا ہے کہ اس نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور پولیس کی موجودگی میں حملہ آور اطمینان سے واپس بھی چلے گئے تھے۔
طلبہ کا الزام تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق اے بی وی پی سے تھا۔ ان میں ایک خاتون بھی تھی۔ اس واقعہ کی جانچ اور کارروائی میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
جے این یو کیمپس میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف معاملات پر بارہا کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ وہاں تشدد کے واقعات پر سنجیدہ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
گاندھی پیس فاونڈیشن نئی دہلی کے سابق ڈائریکٹر، تجزیہ کار اور مصنف انل دت مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جے این یو میں ہونے والے تصادم کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ تعلیمی اداروں کو سیاست کا گڑھ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق نہ تو کسی کی پوجا میں مداخلت کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی پر یہ پابندی عائد کی جانی چاہیے کہ وہ کیا کھائے گا اور کیا پہنے گا۔ ان کے مطابق یونیورسٹی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہاں ہر قسم کی آزادی ہو۔ جے این یو میں بھی آزادی ہے اور دہلی یونیورسٹی میں اور دیگر یونیورسٹیوں میں بھی۔
یاد رہے کہ رواں ماہ میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ رام نومی کے موقع پر ان تنظیموں کی جانب سے نکالے جانے والے جلوسوں کے دوران آٹھ ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے۔ راجستھان کے کرولی اور مدھیہ پردیش کے کھرگون میں متعدد دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
انل دت مشرا کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر دوسری برادری کے لوگوں پر حملہ کرنا درست نہیں ہے۔ وہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بھی ایسی سرگرمیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ان کا کہنا ہے کہ عبادت ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اس کو عوامی بنانے کی ضرورت نہیں۔
ان کے خیال میں یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی سیاست پر پابندی لگائے اور تصادم کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔
انھوں نے جے این یو کی وائس چانسلر کے اس بیان کا خیرمقدم کیا کہ کیمپس میں طلبہ کو اپنی پسند کے کھانے اور پہننے کی پوری آزادی ہے۔ ان پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
وائس چانسلر نے مختلف میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جے این یو میں ہونے والے تصادم کے ذمہ دار وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو سیاسی عزائم رکھتے ہیں۔ 90 فیصد طلبہ قوم پرست ہیں اور وہ کیمپس کی سیاست میں ملوث نہیں ہیں۔
جب ان سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ طلبہ کو اس کی آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں پہنیں اور جو چاہیں کھائیں۔ کوئی پابندی نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے پراکٹر کو تشدد کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور انتظامیہ نے اس بارے میں ایک رپورٹ مرکزی حکومت کو پیش کی ہے۔مرکزی حکومت کی وزارت تعلیم نے اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی۔
رواں سال کے فروری میں جب آر ایس ایس سے قربت رکھنے والی شانتی شری دھولی پنڈت کو جے این یو کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا تو ان کے سیاسی نظریات سے متعلق ایک تنازع پیدا ہوا تھا۔ ان کے اکاؤنٹ سے مودی حکومت کے نظریات کی حمایت میں ٹوئٹس کی گئی تھیں۔
ان کی پہلے کی ٹوئٹس میں مسلمانوں کی نسل کشی اور جے این یو طلبہ پر مبینہ طور پر اے بی وی پی کے طلبہ کے حملے کی حمایت کی گئی تھی۔ انھوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف اپنے بیان میں انہیں جہادی قرار دیا تھا۔جب اس سلسلے میں تنازع پیدا ہوا تو انھوں نے ان ٹوئٹس سے انکار کیا اور کہا کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی نہیں ہے۔
انل دت کہتے ہیں کہ اس ملک میں دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے لوگوں کے کھانے پینے پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بہت غلط اور ناقبل قبول ہے۔ سب کو اپنی پسند کے کھانے اور پہننے کی آزادی ہونی ہے۔انھوں نے تعلیمی اداروں میں مذہبی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں نئی نئی روایتیں شروع کی جا رہی ہیں جو تعلیمی ماحول کے لیے سازگار نہیں ہیں۔
کاویری ہاسٹل کی میس کمیٹی نے ایک بیان جاری کرکے الزام لگایا ہے کہ ہاسٹل کے باہر کے طلبہ نے حملہ کیا اور کمیٹی کے ارکان اور طلبہ کو گالیاں دیں۔ کمیٹی نے کہا کہ کیمپس میں اب بھی کشیدگی ہے۔ اس نے معمول کی صورت حال بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
بیان کے مطابق اے بی وی پی نے بے بنیاد عوے کیے ہیں اور غلط الزامات لگائے ہیں۔ اس نے جے این یو انتظامیہ سے اے بی وی پی کا بیان واپس کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میس کے ضابطے کے مطابق ڈنر مینو میں جو کھانا طے ہے اسے پکانے اور کھلانے کی اجازت دی جائے۔
بائیں بازو کے طلبہ نے تشدد کے خلاف11 اپریل کو دہلی پولیس کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اے بی وی پی کے طلبہ کو تشدد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔