ٹیلی اسکوپ کی مدد سے کائنات کےپوشیدہ راز افشا

کائنات کے بے پایاں راز

محققین کا کہنا ہے کہ اِن بہترین معیار کی تصاویر کی مدد سے ایک بڑا ڈیٹا بینک ترتیب دیا گیا ہے جس میں پوشیدہ رازوں سے متعلق بڑے پیمانے پر مشاہداتی نقشے تیار کرنے کا کام شامل ہے
سائنس دانوں نے ’کینیڈا فرانس ہوائی ٹیلی اسکوپ لگیسی سروے‘ جاری کیا ہےجس کے ذریعے چھ برس تک کائنات کا مشاہدہ کیا گیا جس کے دوران اب تک کے اوجھل رازوں سے پردہ اٹھ گیا ہے، اور جس میں اُن کہکشاؤں کا پتا لگنا بھی شامل ہے جو نو ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔

اطلاعات کے اِس وسیع خزانے کی مدد سے سائنس دانوں کو اب تک کے پوشیدہ راز معلوم ہوسکیں گے، توانائی سے متعلق معلومات ملےگی اور ابھرتی ہوئی اور نئی کہکشاؤں کے بارے میں پتا چلے گا۔ پھر شمسی توانائی کے اُن نظاموں اور Neptune کے مدار سے آگے کے فاصلے کے بارے میں، جس خطے کوKuiper Belt کہا جاتا ہے، معلومات حاصل ہو سکے گی۔

Artist’s impression of the planet around Alpha Centauri B


بین الاقوامی ٹیم کی طرف سے جمع کیا گیا یہ نادر معلومات کا خزینہ اور فلکیات سے متعلق عکس بندی اور ڈیٹا ’کینیڈا، فرانس، ہوائی ٹیلی اسکوپ‘ (سی ایچ ایف ٹی) کا مرہون منت ہے، جو ہوائی میں قائم Mauna Keaکے آتش فشاں کی چوٹی کے برابر کی سطح پر واقع ہے۔

اس پراجیکٹ کی قیادت فرانسیسی اور کینیڈین ماہرین فلکیات کرتے ہیں جنھوں نے Hubble کی طرح کے خلا میں موجود ٹیلی اسکوپ کی جگہ زمین پر موجود ٹیلی اسکوپ کی مدد سےکائنات کے وسیع و اریض خطے کی عکس بندی کی ہے۔

اِنہیں Legacy Surveyکا نام دیا گیا ہے جس کی مدد سے بے شمار نتائج سامنے آئے ہیں، اور اس طرح ’سی ایف ایچ ٹی‘ کے کام کی بہت پذیرائی ہوئی ہے۔

یہ بات ’یونیورسٹی آف ٹورنٹو‘ کے رے منڈ کارل برگ نے کہی ہے جنھوں نے اِس منصوبے کی منصوبہ بندی اور نظرداری کے کام میں مدد دی ہے۔


محققین کا کہنا ہے کہ اِن معیاری فوٹوز کی مدد سے ایک بڑا ڈیٹا بینک ترتیب دیا گیا ہے جس میں پوشیدہ رازوں سے متعلق بڑے پیمانے پر مشاہداتی نقشےتیار کرنے کا کام شامل ہے۔

معلومات کے اس خزانے میں اونچے معیار کی ابتدائیLight measurementsبھی شامل ہیں جن کی مدد سے dark energy سے پردہ اٹھتا ہے جو Cosmological constantسے مشابہ ہے اور جس سے مادے اور کشش ثقل کا پتا چلتا ہے جس کی پیش گوئی البرٹ آئنس ٹائین نے اپنی General Theory of Relativityمیں کی اور جس کے بارے میں بعد میں کہا جانے لگا کہ شاید یہ اُن کی سب سے بڑی بھول تھی۔

حالانکہ dark matter and dark energyکائنات کی وسعتوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں، تاہم اُنھیں نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔

تاہم، ماہرین فلکیات اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ dark energyکے
اُن رموز کی پیمائش کرسکیں جو ایک شرح سے expansion of our universeپہ اثرانداز ہوتی ہیں۔

سائنس دانوں کو ’ڈارک انرجی‘ کے بارے میں بہتر معلومات فراہم کرنے میں مدد دینے کے لیے، ’لگیسی ٹیم‘ نے سینکڑوں کی تعداد میں Type la supernovaeترتیب دیے ہیں، جن کے بارے میں اُن کے کہنا ہے کہ یہ کہکشاں کے فاصلے کے بارے میں بہترین نوعیت کی Light measurementsہیں۔