سکریٹری خارجہ، تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ ''بہتر اور دیرپہ تعلقات کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کے تحفظات پر کھل کر بات کی جائے''۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ''پاکستان امریکہ کےساتھ بات چیت جاری رکھنا چاہتا ہے''؛ جب کہ ''باہمی تعلقات امریکا کے لیے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے پاکستان کے لیے''۔
سکریٹری خارجہ نے یہ بات بدھ کی شام پاکستان سفارت خانے میں پاکستانی، امریکی اور غیر ملکی اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ اپنے موجودہ دورہ امریکہ کے دوران اُن کی امریکی فوجی اور منتخب سولین، دونوں سطح پر بات ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ''70سال کےدوران جو بات چیت ہوئی ہے، جو کام ہوا ہے۔۔ اُسے بحال کرنے کی ضرورت ہے''۔
اعلیٰ پاکستانی اہل کار نے کہا کہ ''ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین 'اسٹرکچرڈ ڈائلاگ' ہو''۔
ایک سوال کے جواب میں، تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ ''پاک امریکہ تعلقات کی بحالی اہم ہے، اور امریکی قائدین، اہل کاروں اور منتخب نمائندگان سے گفتگو کے دوران توجہ اِس بات پر مبذول رہے گی کہ تمام امور پر بات ہو''۔
اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کامیاب ہونے کے لیے فورم چاہیئے ہوتا ہے، اور یہ کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان امریکہ تعلقات کے علاوہ، تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔
افغانستان کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ''پاکستان نے پانچ ورکنگ گروپ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے''۔
اُنھوں نے کہا کہ جب یہ ورکنگ گروپ کام کرنے لگیں گے تو ''تمام 'اشوز' پر مستقل بنیادوں پر بات چیت جاری ہوگی''، اور اِن گروپس کے ہوتے ہوئے بات چیت کا ایک ڈھانچہ ابھر کر سامنے آئے گا، جو بات انتہائی خوش آئند ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کے افغان قیادت والے مفاہمتی عمل میں یقین رکھتا ہے، اور ''یہ بات خوش آئند ہے کہ افغان حکومت نے بہتر مستقبل کے لیے طالبان سے رابطے کے عزم کا اظہار کیا ہے''۔
سکریٹری خارجہ نے کہا کہ ''افغانستان میں امن اور استحکام ہمسایہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، جس کے لیے پاکستان حتی الوسع کوشش جاری رکھے گا اور مدد کرے گا''۔
اِس موقعے پر پاکستانی سفیر، اعزاز احمد چودھری بھی موجود تھے۔