وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے مقدمے میں نامزد سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور اُن کی اہلیہ ماہین ظفر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
طیبہ پر تشدد سے متعلق خبریں دسمبر 2016ء میں منظرِ عام پر آئی تھیں جس کے بعد سے ذیلی عدالت کے سابق جج اور اُن کی اہلیہ کو عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔
سابق جج اور اُن کی اہلیہ کو کمرہ عدالت ہی سے گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اُنھیں سات روز ضمانت دے دی جس دوران وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمٰی میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے طیبہ نامی کم سن گھریلو ملازمہ کو راجہ خرم علی خان کے گھر سے زخمی حالت میں برآمد کیا تھا۔
طیبہ پر مبینہ تشدد کا معاملہ اس وقت ملک میں موضوعِ بحث بن گیا تھا جب اس لڑکی کی تصاویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سامنے آئی تھیں جن میں اُس کے چہرے اور ہاتھ پر تشدد کے نشانات نمایاں تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے اس معاملے کی سماعت کے بعد گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو انہوں نے منگل کو سنایا۔
واضح رہے کہ تشدد کا شکار بننے والی طیبہ کے والد نے مقدمے میں نامزد ضلعی عدالت کے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد اسلام آباد کی ایک عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے صلح نامے پر سوال اٹھایا تھا کہ ایسے واقعات میں عموماً دباؤ ڈال کر صلح کرا دی جاتی ہے اور معاملہ دب جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے پولیس کو اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
یہ معاملہ گزشتہ سال اُس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر گیا تھا جب فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی دو خواتین، فرزانہ اور کوثر اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوئی تھیں اور اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ 10 سال گھریلو ملازمہ طیبہ اُن کی بیٹی ہے۔
اس دعوے کے بعد اب ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ طیبہ کس کی بیٹی ہے۔
عدالت میں پیش ہونے والی خواتین کا مؤقف تھا کہ اُن کی بیٹیاں اغوا ہوئی تھیں اور جب اُنھوں نے ٹیلی ویژن پر طیبہ کی تصاویر دیکھیں تو اُنھیں یہ لگا کہ وہ اُن کی گمشدہ بیٹی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں مشقت کرنے والے بچوں کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10 سے 14 سال کے بچوں کی کل تعداد کا لگ بھگ 13 فی صد مختلف کام اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔