ترکی انتخابات: ایردوان کی جماعت کو استنبول میں شکست

فائل فوٹو

ترکی میں مقامی حکومت کے انتخابات میں صدر رجب طیب ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی کو استنبول میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اپوزیشن نے 54 فیصد ووٹوں کی واضح برتری سے یہاں انتخابات جیت لیے ہیں۔

اپوزیشن جماعت تین ماہ قبل ہونے والے میئر کے انتخابات میں بھی کامیاب ہوئی تھی تاہم طیب ایردوان کی اے کے پارٹی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ترک صدر کی جماعت کی جانب سے نتائج تسلیم نہ کرنے کو مغربی ممالک نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ ترکی کی اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کو ترکی کی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔

ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق تمام ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہو چکا ہے جس میں 'ریپبلکن پیپلز پارٹی' کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔

اپوزیشن کی اس کامیابی کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد میئر کے اُمیدوار اکرن امام اوغلو کے ہزاروں حامی استنبول کی سڑکوں پر نکل کر جشن مناتے رہے۔ امام اوغلو نے کامیابی پر استنبول کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم اس شہر میں جمہوریت مضبوط کریں گے، ہم یہاں انصاف لائیں گے، اس شہر کو ترقی دیں گے یہ میرا وعدہ ہے۔'

سرکاری سطح پر انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوا تاہم رجب طیب ایردوان نے امام اوغلو کو کامیابی پر مبارکباد دی ہے جبکہ ان کے مدمقابل میئر کے امیدوار نے بھی پولنگ ختم ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان ملکی سیاسی منظر نامے پر 2003ء سے متحرک ہیں پہلے وہ وزیر اعظم رہے اس کے بعد صدر منتخب ہوئے، مصطفیٰ کمال کے بعد انھیں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔

اپنے دور اقتدار کے دوران انھوں نے ترکی میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں اور معاشی ڈھانچے کو تبدیل کیا، انھیں ترکی کے قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ معاشی بحران سے ان کی حمایت میں کمی آئی ہے جس کے باعث اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔

ترکی کی کرنسی مسلسل گر رہی ہے جبکہ افراط زر کی شرح میں اضافے سے مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔

ترک صدر کی جماعت اے کے پارٹی کو 25 سال میں پہلی دفعہ استنبول سے شکست ہوئی ہے جو اس کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس سے قبل انقرہ کے انتخابات میں بھی اردوان کی جماعت کو شکست ہو چکی ہے۔