شدت پسند نظریات کو محض حربی چال سے مات نہیں دی جا سکتی: رپورٹ

فائل

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’دہشت گردی ایک علامت ہے، جب کہ شدت پسندی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری ایک نظریہ ہے جو مطلق العنانیت کو مسلط کرنے میں یقین رکھتی ہے

ایک نئی رپورٹ میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ دہشت گردوں اور شدت پسند گروپوں سے لڑنے کے انداز میں قابل ذکر تبدیلی لازم ہے؛ اور متنبہ کیا ہے کہ میدان جنگ میں کامیابی انتہا پسند نظریات کو پھیلنے سے روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

’ٹھوس استطاعت نہ رکھنے والی ریاستوں میں شدت پسندی‘ کے عنوان پر دونوں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس نے بدھ کو اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں تقریباً دو دہائیوں تک دہشت گرد گروہوں سے نبردآزما ہونے کے بعد، جس پر اندازاً 5.9 ٹریلین ڈالر خرچ آئے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھی فوجی حل کی جگہ احتیاطی تدابیر اپنانے کو اولیت دیں۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’دہشت گردی ایک علامت ہے، جب کہ شدت پسندی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری ایک نظریہ ہے جو مطلق العنانیت کو مسلط کرنے میں یقین رکھتی ہے۔‘‘

اس لیے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بظاہر، امریکہ بحران سے نمٹنے کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں الجھ کر رہ گیا ہے‘‘۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’حکمت عملی کی حامل، مربوط اور بر وقت احتیاطی نوعیت کی مناسب احتیاطی تدابیر اپنانا ان خدشات میں کمی کا باعث بنے گی جس میں شدت پسند کمزور استطاعت کی مالک ریاستوں میں اپنی من مانی کر سکتے ہیں‘‘۔

ٹاسک فورس کے نتائج ایسے میں سامنے آئے ہیں جب داعش کے لڑاکے بظاہر ختم ہونے کو ہیں، جو نام نہاد نظریات کی بنیاد پر لاکھوں کی تعداد میں شام اور عراق میں اکٹھے ہوئے تھے۔

یہ خودساختہ خلافت ہے، جس کے سائے تلے بہت بڑی تعداد میں دہشت گرد جمع ہوئے، جب کہ اس وقت ان کی چھوٹی سی تعداد شام میں باغوز کے دیہی علاقے تک چھوٹے خیموں اور مسمار شدہ عمارتوں میں محدود ہوکر رہ گئی ہے۔