پاکستانی فوج کے افغانستان میں فضائی حملوں کے بعد طالبان نے سخت ردّعمل ظاہر کیا ہے جب کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 47 ہو گئی ہے۔
ہفتے کو ہونے والے فضائی حملوں کے بعد پیر کو طالبان کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات سامنے آئے ہیں۔ طالبان عہدے داروں نے پاکستان کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق پیر کو طالبان کے نائب آرمی چیف حاجی مالی خان نے صوبۂ خوست کا دورہ کیا اور فضائی حملوں سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لیا۔ ان کے ہمراہ کئی اعلیٰ عہدے دار بھی موجود تھے۔
اس موقع پر حاجی مالی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم بزدل نہیں۔ امریکہ کے پاس بھی ایسی ہی فضائی قوت تھی لیکن طالبان نے انہیں شکست سے دوچار کیا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان جنگجو اپنی قیادت کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے پاکستان کو آئندہ ایسے اقدامات سے باز رہنے کے لیے خبردار کیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ "اگر ہم امریکہ سے جنگ لڑ سکتے ہیں تو پاکستان کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔"
انہوں نے پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان سرزمین پر حملے کر کے طالبان کے صبر کا امتحان نہ لے، ورنہ طالبان بھی جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ ہفتے کو طالبان حکومت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے سرحدی صوبوں کنڑ اور خوست میں بم باری کی ہے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر کو بھی وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
افغانستان میں فضائی حملوں سے متعلق پاکستان کی فوج کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اتوار کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے افغانستان سے متعلق ایک بیان جاری کیا تھا مگر اس میں بھی فضائی حملوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نےاپنے بیان میں کہا تھا کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے بارڈر محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے کیوں کہ دہشت گرد افغان سر زمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی افواج کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں حکومت کی تبدیلی افغان پالیسی پر کتنی اثرانداز ہوگی؟ہلاکتوں کی تعداد 47 ہو گئی
مقامی حکام کے مطابق پاکستانی فوج کے افغان صوبوں خوست اور کنڑ میں کیے گئے فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 47 ہو گئی ہے۔
خوست کے ڈائریکٹر آف انفارمیشن اینڈ کلچر شبیر احمد عثمانی نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ "خوست میں ڈیورنڈ لائن کے قریب پاکستانی فوج کے حملوں میں 41 عام شہری مارے گئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جب کہ 22 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
خوست میں وزارتِ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ایک عہدے دار نجیب اللہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے 48 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ان کے بقول "24 افراد تو صرف ایک ہی خاندان کے مارے گئے۔"
خوست کے ایک قبائلی سردار جمشید نے بھی 40 سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب اتوار کو حکام نے کہا تھا کہ کنڑ میں بھی ایک خاتون اور پانچ بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی گزشتہ سال طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جاری ہے۔ اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں موجود شدّت پسند گروہ باقاعدگی سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ طالبان پاکستان پر حملوں میں ملوث شدّت پسندوں کو پناہ دینے کی تردید کرتے ہیں۔
SEE ALSO: افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات: 'ملا عمر نے بھی ڈیورنڈ لائن پر صاف جواب دے دیا تھا'دوسری جانب افغان طالبان کو افغانستان کی سرحد پر پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ پر بھی اعتراضات ہیں اور اس تنازع کو سرحدی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔