میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز ’آر ایس ایف‘ نے منگل کو طالبان کی طرف سے شمالی افغان شہر قندوز پر قبضے کے کچھ دیر بعد ہی عورتوں کا ایک ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن جلائے جانے کی مذمت کی۔
طالبان فورسز نے پیر کو قندوز پر قبضہ کر لیا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس اُنھوں نے 2001 میں اقتدار سے معزولی کے بعد کسی شہر پر قبضہ کیا ہو۔
فرانس میں قائم میڈیا ایڈووکیسی گروپ ’آر ایس ایف‘ نے ایک بیان میں نے کہا کہ طالبان نے قندوز میں سرکاری عمارتوں اور مقامی میڈیا کے دفاتر پر قبضہ کر لیا جس میں نجی مقامی براڈکاسٹر روشنی ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی شامل تھا۔ بیان میں بتایا گیا کہ اس کے اکثر آلات کو آگ لگا کر تباہ کر دیا۔
منگل کو ایک نامعلوم مقام سے مختصر انٹرویو میں ریڈیو اسٹیشن کی مالک صدیقہ شیرازی نے اپنے اسٹیشن پر طالبان کے حملے کی تصدیق کی۔
طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے اس بات کو حکومتی پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ طالبان کے جنگجو بینکوں، دکانوں، سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں صرف ایک سرکاری براڈکاسٹر ’ریڈیو وائس آف شریعہ‘ کام کرتا تھا۔ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد میڈیا کے شعبے میں تیزی سے ترقی ہوئی اور گزشتہ 14 سال کے دوران اسے بڑی کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
آر ایس ایف کے مطابق لگ بھگ دس لاکھ آبادی پر مشتمل صوبہ قندوز میں 100 کے قریب صحافی کام کرتے ہیں اور اس میں کم از کم پانچ ریڈیو اور تین ٹی وی اسٹیشن ہیں اور پانچ اخبارات شائع ہیں۔
طالبان کے قبضے کے بعد بہت سے صحافی شہر سے بھاگ گئے ہیں اور ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
صحافیوں کی قومی تنظیم رحیم اللہ سمندر نے آر ایس ایف کو بتایا کہ بہت سے صحافی ہوائی اڈے کی طرف بھاگ گئے تھے جہاں سرکاری فورسز پسپا ہوئی ہیں۔
’’تمام میڈیا نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
زرغونہ حسن جو قندوز میں دو ریڈیو اسٹیشن چلاتی ہیں نے روشنی ریڈیو اور ٹی وی کے جلائے جانے کو ’’میڈیا اور عورتوں پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا رابطہ اپنی ساتھی صحافیوں سے ٹوٹ گیا ہے اور وہ ان کے بارے میں متفکر ہیں۔
آر ایس ایف نے کہا یت کہ ’’وہ قندوز جو بدستور طالبان کے قبضے ہے میں میڈیا کی صورتحال اور متعدد صحافیوں کے بارے میں بہت پریشان ہے جن کی کل صبح سے کوئی اطلاع نہیں۔‘‘