قیدیوں کی رہائی کے لیے 'لویہ جرگہ' بلانے پر طالبان کی تنقید

(فائل فوٹو)

طالبان نے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر افغان حکومت کی جانب سے لویہ جرگہ بلانے کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'نام نہاد' لویہ جرگہ افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے لہذٰا اس کے زیرِ انتظام ہونے والا لویہ جرگہ بھی غیر قانونی اور افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ مکمل اسلامی حکومت کے قیام اور افغانستان کے عوام کی خواہشات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ افغان قوم قبول نہیں کرے گی۔

تین ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل لویہ جرگے میں افغانستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں جو ملک کے اہم فیصلوں کے لیے مشاورت کرتے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار کے لگ بھگ قیدی رہا کرنا تھے۔

افغان حکومت اب تک 4600 کے لگ بھگ طالبان قیدی رہا کر چکی ہے، تاہم اشرف غنی کی حکومت باقی ماندہ 400 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے گریزاں ہے۔

غنی حکومت نے سات اگست کو انہی قیدیوں سے متعلق فیصلے کے لیے لویہ جرگہ بلا رکھا ہے۔

طالبان ماضی میں بھی لویہ جرگہ پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ افغان روایات کے مطابق لویہ جرگہ کے فیصلوں پر عمل کرنا معاشرے کے ہر طبقے پر لازم ہوتا ہے، لیکن طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ موجودہ لویہ جرگہ افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔

افغان حکومت کا طالبان کے باقی ماندہ 400 کے لگ بھگ قیدیوں کے بارے میں مؤقف ہے کہ یہ قیدی سنگین جرائم میں ملوث ہیں، لہذٰا ان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب طالبان تمام 5000 قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چند روز قبل قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ویڈیو کانفرنس کی تھی۔

افغان لویہ جرگہ میں اہم سیاسی رہنما، عمائدین اور مختلف مکاتیب فکر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

اس کانفرنس کے بعد طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ اُنہوں نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوتے طالبان بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کریں گے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عید الاضحی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ طالبان کے 4600 قیدی رہا کر دیے گئے ہیں، لیکن ملکی آئین کے تحت باقی ماندہ 400 قیدی رہا کرنے کا اختیار اُن کے پاس نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ طالبان قیدی سنگین جرائم میں ملوث تھے۔

اسی خطاب میں اشرف غنی نے ان قیدیوں سے متعلق فیصلے کے لیے سات اگست کو کابل میں لویہ جرگہ بلانے کا اعلان کیا تھا۔

'چار سو طالبان قیدیوں میں کوئی غیر ملکی نہیں'

افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے سابق چیف اور لویہ جرگہ کمیشن کے سربراہ معصوم استانکزی نے بدھ کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ مذکورہ 400 طالبان قیدیوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہے۔

اس سے قبل افغان حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان 400 طالبان جنگجوؤں میں کئی پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

معصوم استانکزی نے مزید کہا کہ لویہ جرگہ ان طالبان قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور اس میں لگ بھگ دو ہزار افراد شریک ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ لویہ جرگہ گزشہ سال امن عمل کے سلسلے میں ہونے والے جرگے کا تسلسل ہے اور وہی عمائدین جمعے کو ہونے والے جرگے میں شریک ہوں گے۔

لویہ جرگہ کے سیکریٹری عبدالسلام رحیمی نے بتایا کہ لویہ جرگہ میں شرکت کے لیے ملک کے طول و عرض سے جرگہ اراکین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شب تک جرگے کے بیشتر اراکین کابل پہنچ جائیں گے۔

سیکیورٹی کونسل کی جلال آباد حملے کی مذمت

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جلال آباد میں تین اگست کو ہونے والے دہشت کرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا اور بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ شدت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

جلال آباد کی جیل پر ہونے والے اس حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں اور قیدیوں سمیت 29 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بدھ کو سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے اور زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔

سلامتی کونسل کے ارکان نے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ہر قسم کی دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نوعیت کی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔

سلامتی کونسل نے تمام رکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ بین ا لاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اس سلسلے میں افغانستان کی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام سے تعاون کریں۔