طالبان کا افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار

روس میں کثیر فریقی افغان امن کانفرنس میں شرکت کیلئے طالبان کا وفد۔ فائل فوٹو

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے لیڈروں سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

طالبان نے افغان حکومت کی طرف سے آئیندہ ماہ سعودی عرب میں مزاکرات کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم طالبان نے وہاں امریکی حکومت کے نمائیندوں سے بات چیت جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

طالبان، امریکی اہلکاروں اور پاکستان سمیت علاقائی ممالک کے نمائیندوں کا ایک اجلاس اس ماہ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان میں 17 سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے سے متعلق بات چیت کی گئی۔ تاہم طالبان نے امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے براہ راست بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

طالبان لیڈروں کی کونسل کے ایک رکن نے نیوز ایجنسی رائیٹرز کو بتایا ہے کہ وہ آئندہ ماہ سعودی عرب میں امریکی اہلکاروں سے ملیں گے اور اس ملاقات میں ابوظہبی میں منعقد ہونے والے مزاکرات کے نامکمل پہلوؤں پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ تاہم طالبان رکن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے تمام متعلقہ فریقین پر واضح کر دیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں کریں گے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے لیڈروں سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

طالبان کا اسرار ہے کہ وہ امریکی اہلکاروں کے ساتھ سمجھوتہ طے کرنے کے خواہشمند ہیں جنہیں وہ افغانستان میں واحد طاقت تصور کرتے ہیں۔

افغانستان کے تنازعے کے حل کے سلسلے میں سفارتی کوششوں میں اُس وقت تیزی آئی جب طالبان نمائیندوں نے اس سال افغانستان کیلئے امریکی نمائیندے زلمے خلیل زاد سے بات چیت کا آغاز کیا۔ دونوں فریقین نے کم سے سے کم تین بار ملاقات کی جس میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور 2019 میں فائر بندی کے معاہدے کے بارے میں بات کی گئی۔ تاہم امریکہ کا اصرار ہے کہ افغان تنازعے کے حل کیلئے حتمی معاہدہ افغانستان حکومت کی سرکردگی میں ہی ہونا چاہئیے۔