افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر نے ان خبروں کی تردید کی گئی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے پہ مذاکرات جاری ہیں۔
طالبان کی جانب سے پیر کے روز میڈیا کو بذریعہ ای میل ملا محمد عمر سے منسوب ایک بیان بھیجا گیا ہے جس میں روپوش رہنما نے مذاکرات کی خبروں کو ایسے "من گھڑت پروپیگنڈے" کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد بقول ان کے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی ناکامی پہ پردہ ڈالنا ہے۔
ماضی میں کئی بار افغان صدر حامد کرزئی حکومتی سرپرستی میں قائم "امن کونسل" کے ذریعے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے حصول کیلیے کوششیں کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا اس مقصد کی خاطر کبھی دو طرفہ مذاکرات ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔
بیان میں ملا عمر نے یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان بھر میں شدت پسند حملوں میں تیزی لائی جائے گی تاکہ بقول ان کے "دشمن افواج اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوں اور طالبان انہیں اپنے حملوں کی زد پر لے کر ان کی قوت کو کچل سکیں"۔
امریکہ کی زیرِ قیادت افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے طالبان کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی افغانستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ دی ہے۔ تاہم طالبان کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران علاقے میں غیر ملکی افواج اور افغان اہلکاروں کو نشانہ بنائے جانے کے پہ در پہ کئی ہلاکت خیز واقعات پیش آئے ہیں۔