طالبان کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں بات چیت کا عمل جاری رکھنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات پر اتفاق کیا گیا جب کہ اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا کہ فائر بندی میں توسیع بھی کی جائے گی۔
اجلاس میں ایک ذیلی کمیٹی کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا جو حکومت اور طالبان کی شکایات کا فوری طور پر جائزہ لے گی۔ تاہم اس کمیٹی میں کون کون شامل ہو گا اس میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی زیر صدارت امن مذاکرات کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے لیے حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس میں امن مذاکرت میں ہونی والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ طالبان کی جانب سے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
طالبان کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بدھ کو ہوئے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ جلد ہی طالبان شوریٰ سے ملاقات کر کے حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے گی۔
''طالبان نے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا اعلان تو ضرور کیا ہے، مگر صورت حال پھر بھی قابو میں ہے اور اس کی بڑی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی ہے۔''
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان شوریٰ سے مذاکرات میں دونوں جانب سے غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔
گزشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 40 دن تک جاری رہنے والی فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ اعلان کیا تھا جس کے بعد رواں ہفتے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور اور چارسدہ میں پولیس اہلکاروں کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا جس میں پانچ اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک جب کہ تیس سے زائد اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
تاہم ان حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
وزیر داخلہ چودھری نثار اپنے ایک بیان میں یہ کہہ چکے ہیں کہ فائر بندی میں توسیع نہ ہونے کے بعد با مقصد مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا تھا۔
حکومت اور طالبان کے نامزد مذاکرات کاروں کے درمیان ملاقاتوں کے بعد یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے قبائلی علاقے وزیرستان میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں طالبان شوریٰ سے براہ راست مذاکرات بھی کیے تھے۔
طالبان نے حکومت سے اپنے غیر عسکری قیدیوں کی رہائی اور پیس زون کے قیام کے مطالبات کیے تھے جس پر حکومت کی جانب سے 19 غیر عسکری قیدی رہا بھی کیے گئے جبکہ مزید ایک درجن کو رہا کئے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تاہم طالبان کا الزام ہے کہ اُن کے مطالبات کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیا گیا جس پر وزیر دفاع کہہ چکے ہیں اس سارے عمل کو حکومت نے انتہائی سنجیدگی اور نیک نیتی سے آگے بڑھایا ہے۔
اجلاس میں ایک ذیلی کمیٹی کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا جو حکومت اور طالبان کی شکایات کا فوری طور پر جائزہ لے گی۔ تاہم اس کمیٹی میں کون کون شامل ہو گا اس میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی زیر صدارت امن مذاکرات کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے لیے حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس میں امن مذاکرت میں ہونی والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ طالبان کی جانب سے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
طالبان کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بدھ کو ہوئے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ جلد ہی طالبان شوریٰ سے ملاقات کر کے حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے گی۔
''طالبان نے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا اعلان تو ضرور کیا ہے، مگر صورت حال پھر بھی قابو میں ہے اور اس کی بڑی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی ہے۔''
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان شوریٰ سے مذاکرات میں دونوں جانب سے غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔
گزشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 40 دن تک جاری رہنے والی فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ اعلان کیا تھا جس کے بعد رواں ہفتے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور اور چارسدہ میں پولیس اہلکاروں کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا جس میں پانچ اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک جب کہ تیس سے زائد اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
تاہم ان حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
وزیر داخلہ چودھری نثار اپنے ایک بیان میں یہ کہہ چکے ہیں کہ فائر بندی میں توسیع نہ ہونے کے بعد با مقصد مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا تھا۔
حکومت اور طالبان کے نامزد مذاکرات کاروں کے درمیان ملاقاتوں کے بعد یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے قبائلی علاقے وزیرستان میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں طالبان شوریٰ سے براہ راست مذاکرات بھی کیے تھے۔
طالبان نے حکومت سے اپنے غیر عسکری قیدیوں کی رہائی اور پیس زون کے قیام کے مطالبات کیے تھے جس پر حکومت کی جانب سے 19 غیر عسکری قیدی رہا بھی کیے گئے جبکہ مزید ایک درجن کو رہا کئے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تاہم طالبان کا الزام ہے کہ اُن کے مطالبات کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیا گیا جس پر وزیر دفاع کہہ چکے ہیں اس سارے عمل کو حکومت نے انتہائی سنجیدگی اور نیک نیتی سے آگے بڑھایا ہے۔