|
اقوام متحدہ نے بدھ کے روز افغانستان کے بنیاد پرست طالبان رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کی طبی تعلیم پر اعلان کردہ پابندی پر عمل درآمد سے گریز کریں۔
طالبان کے حالیہ حکم نامے کے مطابق بحران زدہ ملک میں، جہاں پہلے ہی خواتین کے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے حقوق کو محدود کر دیا گیا ہے، اب نقاد سمجھتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے طبی تعلیم کی صورت میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا آخری موقع بھی ممنوع ہو جائے گا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ "اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو یہ حکم نامہ خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے حقوق پر مزید پابندیاں عائد کرے گا۔"
بیان میں رپورٹ کی گئی پابندی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عالمی تنظیم کا ادارہ اس پر "انتہائی فکر مند" ہے۔ تاہم، ادارہ طالبان کے سرکاری چینلز کے ذریعے اس رپورٹ کیے گئے حکم نامے کی باضابطہ تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں خواتین پر میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرنے پر 'پابندی'صحت کے حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرف سے جاری کردہ ہدایت نامے کا منگل سے نفاذ شروع ہو گیا ہے جس کے ایک دن بعد کابل میں ایک اجلاس میں تمام میڈیکل اسکولوں کے سربراہان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ حکام اور اجلاس کے شرکا نے وی او اے سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
صحت عامہ کی وزارت نے ابھی تک اس حکم نامے یا کابل میں ہونے والے اجلاس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد سے افغانستان کے ہیلتھ کیئر نظام اور غربت کے شکار ملک کی ترقی کے امکانات پر "نقصان دہ اثرات" ہوں گے۔
عالمی ادارے نے اپنے بیان میں افغانستان کے ڈی فیکٹو حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ اس اقدام کے افغان خواتین اور لڑکیوں اور تمام شہریوں پر ممکنہ منفی اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد پر دوبارہ غور کریں۔
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ملک بھر میں 30,000 سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں افغان طبی تعلیمی اداروں میں داخل ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان: صالحہ کا تعلیم کا خواب آن لائن پورا ہو رہا ہےمنگل کو جب اس پابندی کا اچانک نفاذ شروع کیا گیا تو بہت سی طالبات اپنے امتحانات دینے والی تھیں۔ اس اقدام کے تحت دائیوں اور نرسوں کے طور پر تربیت حاصل کرنے والی خواتین کو کلاسوں میں واپس نہ آنے کا حکم دیا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ پابندی لاکھوں خواتین کو صحت کی دیکھ بھال کی ضروری خدمات سے محروم کر دے گی۔ ان میں دائیوں اور خواتین نرسوں کی خدمات بھی شامل ہیں۔
پہلے ہی افغانستان کے مرد اکثریتی معاشرے میں طالبان نے کئی صوبوں میں مرد ڈاکٹروں کو خواتین کے علاج سے منع کر رکھا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے "ہیومن رائٹس واچ" نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے بڑی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کو طبی تعلیم دینے والے اداروں میں جانے سے منع کر کے ان کی تعلیم پر پابندی کی آخری باقی رہ جانے والی گنجائش کو بھی ختم کر دیا۔
SEE ALSO: افغانستان: خواتین سمیت نو افراد کو سرِ عام کوڑے مارنے کی سزاحقوق کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیم نے متنبہ کیا کہ متنازعہ حکم نامے کے تحت خواتین صحت کی دیکھ بھال کرنے والی نئی کارکنوں کی تربیت کو روکنے سے دیکھ بھال کی خدمات حاصل نہ کر پا نے والی خواتین کو غیر ضروری کرب، تکلیف، بیماری اور موت کا سامنا کرنے پڑے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں تربیت یافتہ اسٹاف کی غیر موجودگی میں خواتین اور نو مولود بچوں کی اموات میں اضافہ ہو گا۔ اہلکار نے بتایا کہ ایسی غیر سرکاری تنظیمیں جو ان علاقوں میں خدمات فراہم کرتی ہیں ان کو پہلے ہی ڈاکٹروں، نرسوں، دائیوں اور خواتین اسٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔
یورپی یونین نے اس مبینہ اقدام کے انسانی بحران کو مزید بگاڑنے اور اس کے لوگوں کے مصائب میں اضافے کا باعث بننے کے امکانات کے حوالے سے اپنے "سخت تحفظات" کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا کہ یہ فیصلہ افغانستان میں "ایک بار پھر بنیادی انسانی حقوق کی ایک اور ہولناک خلاف ورزی اور خواتین کی تعلیم تک رسائی پر بلاجواز حملے کی نشاندہی کرتا ہے۔"
مغربی ملکوں کے گروپ نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس "امتیازی پالیسی کو تبدیل کریں اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کریں جس میں تمام افغانوں کے لیے تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا شامل ہو۔"
افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان نے بھی طالبان قیادت پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انہوں نے اس پابندی پر گہرے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک کو ہر شعبے میں پیشہ وارانہ افراد کی خصوصاً ڈاکٹروں کی شدید ضرورت ہے۔