ابھی طالبان کابل میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ گلیاں سنسان ہو گئیں۔
اتوار کے روز جب یہ خبریں پھیلیں کہ طالبان شہر میں داخل ہونے والے ہیں، تو افغان دارالحکومت کابل میں خوف پھیل گیا اور گلیاں سنسان ہو گئیں۔
اس وقت وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ایک نامہ نگار پاسپورٹ کے دفتر میں موجود تھے، ان کا کہنا ہے کہ سب لوگوں سے یہ کہا گیا کہ وہ فوری طور پر گھروں کو لوٹ جائیں۔
پھر حال یہ تھا کہ گھر جانے کی جلدی میں سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم ہوگیا اور جہاں کسی کو جگہ دکھائی دی وہیں گاڑی کھڑی کردی۔ تاہم، کچھ دیر کے بعد حالات معمول پر آتے گئے، لیکن پھر بھی ٹریفک جام کی شکایات عام تھیں۔
افغانستان کے وزیر داخلہ نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ طالبان کو پرامن طریقے سے اقتدار منتقل ہو گا۔
پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے مذاکرات
افغان حکام نے کہا ہے کہ طالبان سے عبوری حکومت کے قیام کے سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں اور پرامن طریقے سے انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل کیا جائے گا۔
افغانستان کے قائم مقام وزیرِ داخلہ عبدالستار مرزکوال نے ایک مختصر ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ نگران حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور اقتدار کی منتقلی کا عمل پرامن طریقے سے ہوگا جس کے لیے ایک معاہدہ بھی کیا جائے گا۔
انہوں نے کابل کے رہائشیوں کو یقین دلایا کہ سیکیورٹی فورسز شہر کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی۔
#Afghanistan’s interior minister @mirzakwal_satar releases video message saying #Kabul is not under attack nor will it be attacked and urged people not to pay attention to propaganda. He said a peaceful power transition will take place in Kabul under an agreement. pic.twitter.com/tUxyLjTI7d
— Ayaz Gul (@AyazGul64) August 15, 2021
قطر میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے میڈیا کو بھیجے گئے اپنے بیان میں کہا کہ افغان حکومت سے اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے بات چیت ہو رہی ہے تاکہ شہر میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔
طالبان کی کابل میں اتوار کی صبح داخلے کی خبر کے بعد اتوار کی صبح سے ہی شہر کی صورتِ حال کافی کشیدہ رہی۔ سڑکوں پر سناٹا رہا اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر رہی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان وزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کابل میں تمام اطراف سے داخل ہو رہے ہیں۔ تاہم وزارتِ داخلہ نے مزید کوئی معلومات نہیں دیں کہ طالبان جنگجو تعداد میں کتنے ہیں اور وہ اب تک کن مقامات تک پہنچ چکے ہیں۔
البتہ افغان صدارتی محل کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل کے دور دراز علاقوں میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے افواج بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور وہ کابل کی سیکیورٹی کو یقینی بنا رہے ہیں۔
آگاهی!هموطنان شرافتمند کابل؛در چند نقطهی دور دست شهر کابل، صدای فیر شنیده شده است. نیرو های امنیتی و دفاعی کشور در هماهنگی با همکاران بین المللی وضعیت امنیتی شهر کابل را در کنترول دارند.
— ارگ (@ARG_AFG) August 15, 2021
طالبان نے تمام افغان شہریوں کے لیے عام معافی کا بھی اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔
طالبان کے ذمہ داران نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ "ہم نے اب تک جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا لیکن ملک کے نظام سنبھالنے کے دوران ہم یقین دلاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو نقصان پہنچانا یا قتل کرنا نہیں چاہتے۔"
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق طالبان کے حکام نے کہا ہے کہ دارالحکومت کابل میں کسی بھی شخص کی جان، املاک اور عزت کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے بگرام ایئربیس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہاں موجود قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے کابل سے سفارتی عملے کو نکال لیا ہے۔ 'رائٹرز' کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کو سفارت خانے سے ضلع وزیر اکبر خان میں واقع ایئرپورٹ لے جایا گیا ہے۔
اس سے قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ہفتے کو مزید ایک ہزار اہلکار کابل بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر بائیڈن نے کابل سے سفارتی عملے اور اتحادیوں کے محفوظ انخلا کے لیے تین ہزار اہلکاروں کو روانہ کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔
طالبان افغان دارالحکومت کابل میں ایسے موقع پر داخل ہور ہے ہیں جب انہوں نے گزشتہ چند روز کے دوران کئی اہم صوبوں کا کنٹرول سنبھالا ہے۔
ہفتے کو ہی جنگجوؤں نے صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد پر کسی بھی مزاحمت کے بغیر قبضہ کیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے کسی بھی خاطر خواہ مزاحمت کے بغیر جلال آباد پر قبضہ کیا اور اس موقع پر جنگجو شہر کے مختلف علاقوں میں دندناتے پھر رہے تھے۔
طالبان نے جلال آباد کے گورنر آفس کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے پولیس ہیڈ کوارٹرز پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
جلال آباد پر قبضے کے بعد طالبان نے پاکستان کے شہر پشاور کی طرف جانے والی اہم شاہراہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے جو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہونے والی اہم گزرگاہ بھی ہے۔
جلال آباد سے قبل طالبان نے ہفتے کو شمالی شہر مزارِ شریف کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔
ادھر حکومت کے حمایت یافتہ دو بااثر جنگجو سردار عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم محاذ چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔
عطا محمد نور نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے ایک سازش کے تحت بلخ صوبے پر قبضہ کیا ہے۔ تاہم اس سازش کی انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔
ایسے میں جب طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں، افغان وزارتِ دفاع بھی طالبان کے خلاف فضائی کارروائیوں میں ان کے اہم کمانڈروں کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہی ہے۔
افغان وزارتِ دفاع نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان ایئرفورس نے فریاب صوبے کے ضلع کوٹ میں فضائی کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں 17 جنگجو مارے گئے ہیں جن میں اہم کمانڈر ملا بہادر بھی شامل ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔