طالبان سرکش گروپ کے ایک اہل کار نے منگل کے روز کہا ہے کہ موجودہ افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات نہ کرنے کا طالبان کا مؤقف ’’جاری ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے عمان میں چار ملکی مذاکرات سے ’’ہمارا کوئی تعلق نہیں‘‘، جس بات چیت کا مقصد مکالمے کے ذریعے لڑائی کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔
افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے مذاکرات کار 16 اکتوبر کو خلیجی ریاست میں اجلاس کرنے والے ہیںٕ، تاکہ مکالمے کی بحالی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے، اور دہشت گردی کے خلاف علاقائی تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔
طالبان کے ایک چوٹی کے اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ ناہی ہم اس اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں‘‘۔
اُن سے پوچھا گیا تھا آیا اسلام نواز باغی اس نام نہاد چار فریقی تعاون گروپ یا ’کیو سی جی‘ میں شریک ہوں گے یا اسے تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اُنھیں کھلے عام طالبان کے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اہل کار نے کہا کہ ’’کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کے بارے میں ہمارا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ ہمیں اس اجلاس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اُن (رکن ملکوں) کا اپنا معاملہ ہے‘‘۔
ایک طویل عرصے سے طالبان نے کسی افغان امن بات چیت میں شریک ہونے سے انکار کر رکھا ہے، جب تک امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلاٴ نہیں ہو جاتا۔ دیگر مطالبات کے علاوہ، باغی اس بات کا بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ قطر میں اُن کے نام نہاد سیاسی دفتر کو تسلیم کیا جائے۔
’کیو سی جی‘ جنوری 2016ء میں تشکیل دیا گیا۔ لیکن امن بات چیت اُسی سال مئی میں پانچویں اجلاس کے بعد آگے نہ بڑھ سکی، جب ایک امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان کے راہنما ملا اختر منصور ہلاک ہوئے، جب وہ پاکستانی صوبہٴ بلوچستان میں سفر کر رہے تھے۔
توقع یہ تھی کہ چار فریقی تعاون گروپ کے ارکان اپنا حلقہ ٴاثر استعمال کرتے ہوئے افغان تنازع کے فریق طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے پر قائل کریں گے۔ تاہم، پچھلے چار فریقی اجلاسوں میں پیش رفت کے حصول میں ناکامی کا الزام طالبان کی جانب سے امن مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار اور افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بداعتمادی کے معاملے پر دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نفیس ذکریہ نے کہا ہے کہ ’کیو سی جی‘ کے رُکن کی حیثیت سے اُن کا ملک چین اور امریکہ کے ہمراہ افغان امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پاکستان مسائل کے پُرامن تصفیے اور افغانستان میں قومی مفاہمت کی حمایت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی انداز اپنانے سے افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘۔ اُن سے پوچھا گیا تھا کہ ’کیو سی جی‘ کے آئندہ اجلاس سے متعلق پاکستان کی کیا توقعات ہیں۔