ترکی میں افغان امن مذاکرات میں طالبان کی شرکت کی تردید

فائل فوٹو

افغانستان کی حکومت کے مذاکرات کاروں اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ترکی میں "غیرسرکاری" سطح کی بات چیت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ان کا مقصد باضابطہ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے "طریقہ کار" وضع کرنا بتایا جاتا ہے۔

گفت و شنید کے شرکا نے افغان میڈیا کو بتایا کہ اس بات چیت کا اہتمام ترک حکومت کے تعاون سے کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق طالبان کے قطر میں واقع دفتر کے عہدیداروں اور دیگر عسکریت پسند گروپ اس بات چیت میں شریک ہوئے۔ افغان حکومت نے تاحال اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

لیکن طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان مذاکرات کی اطلاعات کو مسترد کیا ہے۔

ترکی میں ان مذاکرات کی اطلاعات ایک ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک وفد سلامتی اور سیاسی امور پر افغان راہنماؤں سے بات چت کے لیے کابل آیا ہوا ہے۔

اس 15 رکنی مہمان وفد کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے۔

یہ ملاقاتیں ایسے وقت ہو رہی ہیں جب افغانستان میں سلامتی کی صورتحال میں ابتری دیکھی جا رہی ہے اور افغان فورسز اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی اور مڈبھیڑ ہو رہی ہے۔

اسی اثناء میں افغانستان کے سیاسی منظر نامے پر بھی کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ شمالی صوبے بلخ کے گورنر نے صدارتی حکم کے باوجود اپنا منصب چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ صدر نے انھیں ایک ماہ قبل برطرف کرتے ہوئے نیا گورنر بھی تعینات کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

عطا محمد نور گزشتہ 13 سال سے زائد عرصے سے صوبے کا اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ صدر اشرف غنی کو انھیں ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔

نور کا موقف ہے کہ ان کی پارٹی جماعت اسلامی مرکز کی اتحادی حکومت کی اہم رکن ہے اور انھوں نے صدر غنی سے چند مطالبات کر رکھے جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔

افغان حکومت آئندہ ماہ کے اوائل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں توقع ہے کہ افغان فورسز اور ان کے بین الاقوامی اتحادیوں سے لڑائی میں مصروف مسلح گروپوں سے امن بات چیت کے لیے "جامع حکمت عملی" پیش کی جائے گی۔